• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ فردوس عاشق اعوان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے پربہت سے دوستوں نے کالم لکھے۔ ہر کالم کے چہرے پر تکلیف ہویدا تھی ۔ہر ہر سطر کا ماتھا شکنوں سے بھرا ہوا تھا۔ رئوف کلاسرا نے تنویرحسین ملک کے حوالے سے فردوس عاشق اعوان کے ساتھ کچھ پرانی یادوں پر پڑی ہوئی گرد اپنے تند وتیز قلم سے جھاڑ دی۔ سہیل وڑائچ نے شاعرانہ تعلی کا سہارا لے کر فردوس عاشق اعوان کی شمولیت سے مزاح کشید کرنے کی کوشش کی۔ اور سلیم صافی نے تو’’اِس شمولیت‘‘ پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ پوری تحریک انصاف کی تحلیل نفسی کر کے رکھ دی اور اسے قاف لیگ قرار دے دیا۔ آئیے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کیا ہے اور اس میں کس طرح لوگ شامل ہوئے۔
کسی زمانے میں دو پارٹیاں تھیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی۔ مسلم لیگ نون ان دنوں قاف لیگ ہوا کرتی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے تمام پسندیدہ لوگ اسی مسلم لیگ میں ہوتے تھے۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور نئی قاف لیگ وجود میں آگئی ۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک صف میں جا کھڑی ہوئیں۔ آصف علی زرداری کا دورِ حکومت آ گیا ۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا نظریہ ایک ہوگیا۔ وہ لوگ جو ایک طویل عرصہ سے پیپلز پارٹی کوووٹ دیتے چلے آ رہے تھے وہ پریشان ہو گئے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا تو انہیں عمران خان نظر آیا۔ جس کی دیانت داری کایہ عالم تھاکہ لوگ آنکھیں بند کر کے اسے صرف شوکت خاتم اسپتال کے لئے کروڑوں اربوں دیتے چلے آرہے تھے اور دیتے چلے آرہے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک انبوہ اس کے ساتھ تھا۔ جن کی عمر، عمران خان کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی ۔جو اپنے جلسوں میں گاتے بھی تھے اور ناچتے بھی تھے۔ پیپلز پارٹی سے زیادہ آزاد خیال ماحول اور اُس سے کہیں زیادہ دیانت اور انصاف کے نظام کی خواہش اس تحریک میں دکھا ئی دے رہی تھی ۔سو پیپلز پارٹی کا ووٹر تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پرویز خٹک جیسے لوگ آصف زرداری سے مایوس ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ نون لیگ سے مایوس ہونے والوں نے بھی پی ٹی آئی کے دامن میںپناہ لی۔ جماعت اسلامی کے برگشتہ پہلے سےیہاں موجود تھے۔ پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والی پہلی اہم شخصیت شاہ محمود قریشی کی تھی۔ نون لیگ سے شامل ہونے والی شخصیت کا نام جاوید ہاشمی تھا۔ دونوں شخصیتوں پر بظاہر کرپشن کے کوئی داغ نہیں تھے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے دونوں کو بڑی عزت دی مگر جاوید ہاشمی نئی بلندیوں کی تلاش میں سعد رفیق کی دوستی پرقربان ہو گئے۔ جہانگیر ترین جو پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنا چاہتے تھے انہیں تحریک انصاف میں موقع ملا اور انہوں نے اس موقع کا بھرپورفائدہ اٹھایا انہیں اٹھانا بھی چاہئے کہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ برطانوی سیاست کی اہم شخصیت چوہدری محمد سرور بھی اپنے ملک کےلئے کچھ کرنا چاہتے تھے اس مقصد کےلئے انہوں نے برطانوی شہریت چھوڑ دی۔ نون لیگ نے انہیں گورنر پنجاب لگا دیا مگر جلد انہیں احساس ہوگیا کہ وہ نون لیگ میں رہ کر ملک کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔ انہیں تحریک انصاف میں روشنی کی کرن نظر آئی اور انہوں نے گورنر شپ چھوڑ کر پی ٹی آئی کو جوائن کر لیا۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں میں سے وہ لوگ جو ہر حال میں اقتدار میں رہنا چاہتے تھے وہ تونون لیگ میں شامل ہوگئے تھے مگر وہ لوگ جن کے دلوں میں تبدیلی کا چراغ جلتا تھا وہ تحریک انصاف میں آ گئے۔ اگر وہ برے یا کرپٹ لوگ ہوتے تو نون لیگ میں جاتے جس کے پاس پیپلز پارٹی کے دورمیں بھی اقتدار موجود تھا یعنی پنجاب میں حکومت تھی۔ سردار آصف احمد علی، بیرسٹر سلطان محمود، یار محمد رند، راجہ ریاض، اشرف سوہنا، ممتاز تارڑ، عامر ڈوگر، نور عالم خان، نذر محمد گوندل، فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے بعد اگر بابر اعوان، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن بھی تحریک انصاف میںشامل ہو جاتے ہیں تو یقیناََ یہ بات عمران خان کی سچائی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ آج ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ماننے والے پاکستان کا مستقبل عمران خان کے ساتھ وابستہ دیکھ رہے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ یہی شخصیت پاکستان کو منزلوں سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ صرف پیپلز پارٹی کے لوگ تحریک میںشامل نہیں ہوئے۔ تقریباً ساری پارٹیوں کے لوگ جو اپنی پارٹیوں سے مایوس تھے وہ پی ٹی آئی میں آئے حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کی اہم ترین شخصیت اعظم سواتی بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔پی ٹی آئی پرایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ دوہزار گیارہ کے بعد پی ٹی آئی میں ایجنسیاں لوگوں کو شامل کراتی رہی ہیں۔ یہ جتنے نام میں نےدرج کئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کبھی ایجنسیوں کے پے رول پہ رہا ہو۔ ایجنسیوں والے لوگوں کی فہرست اصغر خان کیس میں سامنے آچکی ہے۔ ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف رائٹ ونگ کی پارٹی ہے یا لیفٹ ونگ کی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اب تقریباً ختم ہوچکی ہے۔کسی زمانے میں رائٹ ونگ کا سربراہ امریکہ اور لیفٹ ونگ کی سربراہی روس اور چین کے پاس تھی۔ اِس وقت تو خود پاکستان امریکہ کو چھوڑ کر چین اور روس کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ پی ٹی آئی پرایک الزام یہ بھی لگایا جارہا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کوئی نہیں ہے ۔میں نے پی ٹی آئی کے رہنما امجد علی خان سے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہا ’’میرے خیال میں توپی ٹی آئی واحد ایسی جماعت ہے جو اپنی خارجہ پالیسی رکھتی ہے۔ آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی کا نعرہ عمران خان نے ہی لگایا ہے۔ سرحدوں کی ہر ممکن حفاظت کےلئےدوست ممالک سے دفاعی معاہدے پی ٹی آئی کی پالیسی میں شامل ہیں آخری حد تک قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت، ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات غیر جانبدار تحریک سے وابستگی، جارحیت کی مخالفت ،نسلی امتیاز کی مذمت، آزادی کشمیر کے لیے جد وجہد، نو آبادیاتی نظام کی مخالفت، عالمی سیاست میں بھرپور کردار، دوسرے ممالک کی آزادی کا احترام، مسلم ممالک کے اختلافات میں مصالحانہ کردار، چین روس اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناسب، یہ سب پی ٹی آئی کی ہی خارجہ پالیسی ہے۔ انصاف پر مبنی آزاد معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک پاکستان ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی نہیں اپنا لیتا۔ پاکستان میں جو انرجی کا بحران ہے اُس کا واحد حل ایران سے گیس لینے کےساتھ جڑا ہوا ہے مگر ناکام خارجہ پالیسی کے سبب ہم ابھی تک ایران سے گیس نہیں لے سکے۔‘‘

تازہ ترین