• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوری۔2022۔ایک اردو اخبارکی ہیڈلائن
65سال کے تمام افراد کیلئے پنشن کا اعلان
خبر کی تفصیل ’’حکومت پاکستان نے پاکستان کے تمام65 سال سے زائد عمر کے افراد کیلئے پنشن کا اعلان کردیا ہے۔ چاہے وہ کام کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے۔ یہ پنشن ماہانہ تیس ہزار روپے ہوگی۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس ملک کا ہر بزرگ شہری تیس ہزار روپے میں مہینہ گزار سکتا ہے۔اس کے علاوہ ان افراد پر بسوں اور ٹرینوں کا کرایہ ختم کردیا گیا ہے اور اس عمر کے جو ڈرائیور ہیں وہ کہیں بھی گاڑی پارک کرسکیں گے مگر اس کیلئے انہیں حکومت کی طرف سے دیا گیا کارڈ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر آویزاں کرنا ضروری ہوگا لیکن حکومت بزرگ افراد سے توقع رکھتی ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ گاڑی پارک نہیں کریں گے جس کی وجہ سے ٹریفک کے نظام میں کوئی خرابی پیدا ہو۔‘‘
مارچ۔2022۔وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اندر پرائم منسٹر آف پاکستان کے آفس میں ان سے کچھ پولیس افسران انٹرویو کر رہے ہیں۔
’’سر آپ نے تین ایسی شخصیات کو سینیٹر بنایا ہے جنہوں نے آپ کی پارٹی کو کئی کروڑ روپے فنڈ فراہم کئے ہیں، قانونی طور پر یہ بات جرم ہے اورہمارے پاس اس بات کے تمام ثبوت موجود ہیں (فائل وزیر اعظم کےسامنے رکھتے ہوئے )یہ آپ دیکھ سکتے ہیں‘‘وزیر اعظم کہتے ہیں۔میں اپنے پارٹی کے لوگوں سے مشورے کے بعد آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔(پولیس آفیسر بولا) سر اس سلسلے میں کل تک آپ کو اپنا بیان دینا ہوگا‘‘
منظر بدلتا ہے۔ٹی وی پر خبر نشر ہورہی ہے
وزیراعظم پاکستان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینے سے پہلے انہوں نے اپنی پارٹی کی طرف سےبنائے تین سینیٹر کی سینیٹر شپ ختم کردی ہے اور قوم سے اس بات کی معافی مانگی ہے کہ ان تین سینیٹرنے پارٹی کوکئی کروڑ روپے فنڈ دیا تھا جو ان کے علم میںنہیں تھا مگرچونکہ وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پارٹی لیڈر بھی ہیں اس لئے یہ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے وزیراعظم شپ کے ساتھ پارٹی کی لیڈر شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔نئے وزیر اعظم کا انتخاب کل ہوگا
اگست۔2022۔صدر پاکستان اور ان کی اہلیہ اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں جاتے ہیں جہاں ان کے بیٹے کو پولیس بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے کے جرم میں گرفتار کر کے لے گئی ہے۔صدر پاکستان تھانے کے ایس ایچ او سے کہتے ہیں
’’ہم شرمندہ ہیںہم پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ ہمارا بیٹا کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔‘‘ (ایس ایچ اوکہتا ہے) ’’سر آپ تحریری طور پر اپنا بیان لکھ دیں اس کے بعد آپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے جا سکتے ہیں‘‘اور صدرپاکستان تھانے میں ایس ایچ او کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر اپنا بیان لکھنے لگتے ہیں
اکتوبر۔2022۔اخبارمیں شائع شدہ ایک کالمی خبر
’’پاکستان کے وزیر داخلہ کی ڈرائیونگ لائسنس کی بحالی کی اپیل۔ وزیر داخلہ نے کورٹ میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دفتر آنے جانے میں بہت تکلیف کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ڈیوٹی درست انداز میں سرانجام نہیں دے پارہے۔ براہ ِ مہربانی ان کا ڈرائیونگ لائسنس بحال کیا جائے۔یاد رہے کہ وزیر داخلہ کا ڈرائیونگ لائسنس آج سے تین مہینے پہلے تیز ڈرائیونگ کے جرم میں ایک سال کیلئے منسوخ کردیا گیا تھا۔‘‘
نومبر۔2022۔سپریم کورٹ میں ایک اہم فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔بے شمارٹی وی کیمروں نے چیف جسٹس کا کلوز ا پ بنارکھا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان اپنا مختصر فیصلہ پڑھنا شروع کرتے ہیں۔سٹل کیمروں کی بیم لائٹس کی تیز چمک آنکھوں کو چندھیانے لگتی ہے۔
چیف جسٹس فیصلہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’1977 کے بعد سیاستدان، سول بیوروکریٹس اور ملٹری بیورو کریٹس کے خاندان جن کے پاس پانچ کروڑ روپے سے زیادہ سرمایہ ہے ان کی دولت کا نوے فیصدحصہ عدالت حکومت ِ پاکستان کی ملکیت قرار دیتی ہے۔یہ بات اس مقدمہ میں طے پا گئی ہے کہ یہ تمام عہدہ دار یا ان کی اولادیں اپنے یا اپنے والدین کے حکومتی اثر و رسوخ کے بغیر اتنی دولت نہیں کما سکتے تھے۔اِن میں سے جن لوگوں نے اپنی دولت ملک سے باہربنکوں میں رکھی ہوئی ہے انہیں دس دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی جا رہی ہے اور حکومتِ پاکستان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ ان ممالک سے وہ سرمایہ واپس وطن لانے کا بندوبست کرے۔

تازہ ترین