• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کس قدرایمان افروز اتفاق ہے کہ آج ستائیسویں رمضان اور جمعۃ الوداع ہے۔ ستائیسویں رمضان کو عام طور پر لیلۃ القدر یا شب ِ قدر کہتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے نبی کریمﷺ کافرمان ہے کہ شب ِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں اسے ایمان افروز حقیقت یا حسن اتفاق اس لئے کہتا ہوں کہ جب 14اور15اگست 1947کی نصف شب 12بجے پاکستان معرض وجود میںآیا، ایک عظیم اور سب بڑی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پرابھری تو وہ رات بھی ستائیسویں رمضان تھی، یعنی شب ِ قدر تھی اور 15اگست کو جب پاکستانی قو م نے پہلا یوم آزادی منایا تو اس روز جمعۃ الوداع کا دن تھا۔ کئی دہائیوں کےبعد آج وہی صورت ہے کہ ستائیسویں رمضان..... لیلۃ القدراور جمعۃ الوداع اکٹھے ہوگئے ہیں۔ لیکن ہم عیسوی کیلنڈر پر عمل کرنے کے سبب ستائیسویں رمضان کی آسمان سے برستی برکات میں یوم آزادی منانے کی بجائے 14اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں۔ ایک روشن خیال دانشور نے لکھا کہ سارے دن ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ جس خالق حقیقی نے دن رات پیدا کئے ہیں اس خالق حقیقی نےاپنی آخری کتاب قرآن مجید میں ’’سورۃ القدر‘‘ اتاری جس میں فرمایا ’’بے شک ہم نے (قرآن) شب ِ قدر میں نازل کیا۔ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لئے اترتے ہیں‘‘ وضاحت کے طور پر عرض کیاجاسکتا ہے کہ قرآن حکیم کا نزول شب ِ قدر میں شروع ہوااور شب ِ قدر ہی میں مکمل ہوا۔ اس رات عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی زیادہ ہے اورعبادت میں مصروف لوگوں کے لئے آسمان سےاترنے والے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔پھر یہ دن عام دنوں جیسا کیسے ہوا؟ نہ سب دن سب راتیں ایک جیسی ہوتی ہیں نہ سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس مبارک رات کوپاکستان کا قائم ہونا رضائے الہٰی تھی اور اسے محض حسن اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ یاد رکھئے کہ حکومت ِبرطانیہ کے اعلان کےمطابق تقسیم ہند جون 1948میں ہونا تھی۔ لیکن منشائےالٰہی یہ تھی کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کی نصف شب ابھرے، جب آسمان سے فرشتے اتر کر رحمت ِ خداوندی کے لئے دعائوں میں مصروف ہوں۔ ایساکیسے اور کیونکر ہوا؟ یہ بھی تاریخ کا ایک فکرانگیز حسن اتفاق ہے۔ برطانیہ کا آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن تقسیم ہند کا منصوبہ حکومت ِ برطانیہ سے منظور کروا کر لایا تو اس نے ہندوستان کےممتاز لیڈروں قائد اعظم محمد علی جناح ، نہرو اورسردار بلدیو سنگھ سے 2جون کی ملاقات میں ٹرانسفر آف پاور کے منصوبے کو منظور کروالیا۔ 3جون کو مائونٹ بیٹن نے اس منصوبے کا اعلان کیا اور ریڈیوسے تقریر بھی کی۔ 3جون کو ہی نہرو،قائداعظمؒ اور سرداربلدیو سنگھ نے آل انڈیا ریڈیو سے قوم کو خطاب کیا۔ قائداعظمؒ نے اپنی تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کہا اور یوں آل انڈیا ریڈیوسے یہ الفاظ پہلی بارقوم نے سنے۔ اس وقت تک انتقال اقتدار کی تاریخ طے تھی نہ ہی اعلان ہواتھا۔ 4جون کو ہندوستان کے وائسرائے نے تاریخ میں دوسری بارپریس کانفرنس کی جس میں دنیا بھر کے اخباری نمائندے موجود تھے۔ پریس کانفرنس کے بعد سوالات و جوابات میں ایک صحافی نے وائسرائے سے پوچھا کہ آپ نے انتقال اقتدار کا اعلان توکردیا ہے اس کے لئے آپ کے ذہن میں کوئی تاریخ بھی ہوگی؟ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس راز سےاپنے ایک اہم انٹرویو میں پردہ اٹھایا جو اس نےمعروف کتاب ’’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘‘ (Freedom at Midnight) کے مصنّفین کولنز اور لیپری کو دیا۔ بحوالہ صفحہ نمبر (164-65) مائونٹ بیٹن کا بیان ہے کہ وہ یہ سوال سن کر چکراگیا۔ وہ اعتماد کی بلندیوں پر پروازکررہا تھا اور یہ تاثر نہیں دیناچاہتا تھا کہ فیصلہ کن لمحات اس کے تابع نہیں۔بقول مائونٹ بیٹن کئی تاریخیں اس کے ذہن میں گردش کرنےلگیں پھر اچانک ایک تاریخ اس کے ذہن پر واضح ہوگئی۔ یہ تاریخ مائونٹ بیٹن کی فتح اور شہرت کا باعث تھی۔ جنگ ِ عظیم دوم کے دوران مائونٹ بیٹن سائوتھ ایسٹ ایشیا کا کمانڈر تھا اوراس نے برما کے جنگلوں میں دشمن کو شکست دی تھی۔ جاپان نے 14اگست 1945کو شکست تسلیم کی اور سرکاری طور پر جنگ عظیم دوم 15-14اگست 1945 کی نصف شب ختم ہوئی تھی۔ اس فتح کے نشے نے مائونٹ بیٹن کو تاریخی دن یاد دلایا اور اس نے پریس کانفرنس میں سوال کے جواب میں یہ اعلان کردیا کہ ہندوستان میں انتقال اقتدار 15اگست 1947کو کردیا جائے گا۔ مائونٹ بیٹن یا حکومت ِ برطانیہ کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ 15-14اگست کی نصف شب جب ریڈیو سے’’یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے‘‘ کےالفاظ پوری دنیا میں گونجیں گے تو وہ ستائیسویں رمضان ہوگی۔ یہ تھا قدرت کافیصلہ، یہ تھی منشائے الہٰی..... اس لئے میں اسے صرف حسن اتفاق نہیں سمجھتا۔ ذرا سوچئے مائونٹ بیٹن اگست یا ستمبر کی کسی اورتاریخ کا اعلان بھی کرسکتا تھا!!
واقعات کے تسلسل کو سمجھئے کہ یہ ہماری تاریخ ہے۔ 14اگست کو وائسرائے ہند کراچی پہنچا۔ قائداعظمؒ اس کےاستقبال کےلئے ایئرپورٹ پر نہیں گئے جس کا مائونٹ بیٹن کو شدید رنج تھا لیکن دراصل یہ احتجاج تھا مائونٹ بیٹن اور حکومت ِبرطانیہ کی بے انصافیوں کے خلاف جن کے نتیجے میں مسلمانان ِ ہند کوبےشمارمظالم اور مصائب کاسامنا کرنا پڑا۔ 14اگست کو مائونٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں صبح 9بجے انتقال اقتدار۔ قیام پاکستان کااعلان کیا اور کہا کہ حکومت ِ پاکستان اکبر بادشاہ کی مانند صلح کل کا مظاہرہ کرے گی۔ قائداعظمؒ کا جواب تھا کہ فتح مکہ کے بعد ہمارے نبی کریم ﷺ نے جس طرح معافی کااعلان کیا اور اقلیتوں کو مکمل مذہبی اورشہری آزادی دی، ہمارے سامنے وہ مثال موجود ہے۔ ہم اسوئہ حسنہ کی پیروی کریں گے۔
پاکستان کے جھنڈے کی منظوری دستورساز اسمبلی نے قائداعظمؒ کی صدارت میں 11اگست کو دے دی تھی۔ لیاقت علی خان نے یہ جھنڈا باقاعدہ اسمبلی میں لہرایا تھا۔ آزادی کااعلان 15-14اگست کی نصف شب ہوا لیکن عملی طور پرمائونٹ بیٹن کے پروانہ ٔ آزادی دینے کے بعدآزادی کی تقریبات کا آغاز ہوگیاتھا چنانچہ 14اگست کو کراچی میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ تقریب پرچم کشائی میں قائداعظمؒ تشریف لے گئے تو وہ اپنے ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانی کو خاص طور پر لے کر گئے اور انہی سے پرچم کشائی کروائی۔ قائداعظمؒ کے حکم کے مطابق ڈھاکہ میں اسی روز مولانا ظفرعثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔ مولانا شبیر عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے نہایت قریبی ساتھی اور معتقد تھےجبکہ مولانا ظفرعثمانی مولانا تھانوی کے خواہر زادے تھے (پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری صفحہ نمبر 1) قائداعظمؒ کا خود پہلی بارقومی پرچم لہرانے کی بجائے مولانا شبیر احمد عثمانی سے پرچم کشائی کروانا ایک واضح پیغام تھا کہ قائداعظمؒ کا تصور ِ پاکستان ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کا تصور تھا۔ قائداعظمؒ یہی بات اپنی تقریروں میں مسلسل کہتے رہے تھے لیکن انہیں یہ وعدہ ایفا کرنےکاموقع نہ ملا۔ میرے فہم کے مطابق شب ِ قدر کو قیام پاکستان کے پس منظرمیں ہی جناب حفیظ جالندھری مرحوم نےترانہ پاکستان کاآخری مصرع یوں لکھا تھا ’’سایہ ٔ خدائے ذوالجلال‘‘ 15اگست 1947کو جمعۃ الوداع کے دن پوی قوم نے قیام پاکستان پر شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے اور اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکر ادا کیا تھا۔ یہ اظہار تشکر آج بھی ہم پر اسی طرح واجب ہے اور ہمیشہ واجب رہے گا۔ جب اللہ پاک کی جانب سے نعمت عطا ہوتی ہے تو وہ اپنے ساتھ کچھ تقاضے بھی لاتی ہے۔ قرآن مجید میںکتنی ہی قوموں کا ذکر ہے جنہیں اللہ پاک نے نعمتیں عطاکیں اور جب انہوں نے ان نعمتوں کے تقاضے پورے نہ کئے تو ان کا انجام سبق آموز ہوا..... دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 

.

تازہ ترین