• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ہم کینیڈا میں ہیں۔ پاناما اور جے آئی ٹی کے ہنگاموں سے بہت دور۔ مگر بہت قریب بھی۔ یہ جو ٹی وی چینل ہیں انہوں نے سارے فاصلے قربت میں بدل دیئے ہیں۔ پاکستان سے ایک ایک منٹ کی خبر ہمیں مل رہی ہے۔ لگتا ہے جیسے ہم پاکستان میں ہی بیٹھے ہیں۔ صرف وقت کا فرق ہے۔ اور یہ فرق پورے نو گھنٹے کا ہے۔ ہم پاکستان سے نو گھنٹے پیچھے ہیں۔ کل جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اب اس رپورٹ میں کیا لکھا گیا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ شاید اندر کی خبر رکھنے والے تفتیشی رپورٹر کچھ جانتے ہوں لیکن قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اب جہاں تک مسلم لیگ (ن) یا میاں نواز شریف کے وزیروں وغیرہ کا تعلق ہے، تو انہوں نے خطرے کی بُو پہلے ہی سونگھ لی تھی۔ اس لئے دو دن پہلے ہی چار سینئر وزیروں نے دھواں دھار پریس کا نفرنس کر کے اعلان کر دیا تھا کہ اگر قطری شہزادے کی گواہی نہ لی گئی تو ہم اس رپورٹ کو نہیں مانیں گے۔ اور قطری شہزادے کی گواہی نہیں لی گئی۔ کیوں نہیں لی گئی؟ اس کی وضاحت رپورٹ میں ضرور کر دی گئی ہو گی۔ اگرچہ ہم اس شور شرابے سے بہت دور ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اب یہ شور شرابہ اور بھی بڑھے گا۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے تیور یہی بتا رہے ہیں۔ ادھر اس شور شرابے اور اس طوفان میں ایف آئی اے کی اس رپورٹ نے اور بھی ہلچل مچا دی ہے جس نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین پر لگایا جانے والا یہ الزام ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے شریف خاندان کی کاروباری کمپنیوں کے ریکارڈ میں ردو بدل کیا ہے۔ ایف آئی اے نے تو یہ بھی سفارش کی ہے کہ کمیشن کے چیئرمین کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے۔ اب کمیشن کے چیئرمین پر مقدمہ بنے یا نہ بنے البتہ شریف خاندان اور بھی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کیا لکھا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس رپورٹ پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔ مگرحالات کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہاں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہی وہ سوال ہے جس نے پاکستان کے دوسرے سوچنے سمجھنے والے احباب کی طرح ہمیں بھی پریشان کر رکھا ہے۔ ہم براہ راست اور بالواسطہ آمریتوں کے زخم خوردہ ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے ضیا آمریت کے پچاس سال یاد کئے ہیں۔ اور یاد کیا ہے اس حقیقت کو کہ اس ننگی آمریت نے ہمارے پورے معاشرے کے جسم پر جو سلگتے ہوئے زخم لگائے ہیں ان کی تپک ابھی تک باقی ہے بلکہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ضیائی آمریت کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تو وہ بھی غلط نہیں ہے۔ ہم سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر آج بھی ضیاء الحق کے دور میں ہی زندہ ہیں۔ اب آگے کیا ہو گا؟ یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ اس وقت تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ خدا کرے ہماری بدگمانیاں غلط ہوں۔ اوراس کے بعد واقعی ہم صحیح راستے پرچل پڑیں۔
خیر، مستنصر تارڑ نے ہمیں ڈرا دیا تھا کہ پاکستان سے جانے والی پی آئی اے کی براہ راست پرواز کو مانچسٹر میں روک لیا جاتا ہے اور تمام مسافروں کو وہاں اتار کر ان کی اسکریننگ کی جاتی ہے۔ اور یہ اسکریننگ ایسے کی جاتی ہے کہ ہر مسافر کو شیشے کے ایک خول میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اس کی ایک ایک ہڈی پسلی تک دیکھی جاتی ہے۔ مستنصر نے اسے نہایت ہی شرمناک حرکت کہا تھا۔ اس وجہ سے ہم بھی ڈرے ہوئے تھے لیکن ہمیں پتہ چلا کہ یہ شرمناک حر کت امریکہ جانے والوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ مستنصر امریکہ جا رہے تھے اور ہم کینیڈا۔ امریکہ ہم سے کچھ زیادہ ہی خوف کھاتا ہے مگر کینیڈا ہمیں ہوّا نہیں سمجھتا (یعنی ابھی تک تو نہیں سمجھتا)۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا اور روانہ ہو گئے۔ ہوائی جہاز میں پاکستان سے براہ راست کینیڈا کا سفر تیرہ گھنٹے کا ہے مگر ہمارے جہاز نے ہمیں ساڑھے بارہ گھنٹے میں ہی پہنچا دیا۔ اب یہ جہاز کے کپتان چغتائی صاحب کا کارنامہ تھا یا اس ہوا کا جو جہاز کے پیچھے ایسی لگی کہ تیرہ گھنٹے کا سفر آدھے گھنٹے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ بہرحال،ہمارا سفر بڑے آرام سے پورا ہو گیا۔ ہم خوش ہمارا خدا خوش۔
تو صاحب جمہوریت کا مزہ تو ان ملکوں میں ہی آتا ہے خاص طور سے کینیڈا میں۔ ہر فرد کے جان و مال کا تحفظ۔ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت۔ رنگ و نسل اور مذہب کا کوئی تفرقہ نہیں۔ کینیڈا کا وزیر دفاع سکھ ہے۔ اور امیگریشن کا وزیر صومالیہ کا مسلمان ہے۔ نام اس کا ہے احمد حسین۔ یہاں کالے گورے کی تمیز شاید انفرادی سطح پر کہیں ہوتی ہو تو ہو، مگر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ایسی بات کو ئی زبان پر بھی نہیں لاتا۔ ہم نے غلطی سے اپنے چھوٹے پوتے کے سامنے کہیں کہہ دیا کہ تمہارا دوست کالا ہے۔ اس پر ہمارے پوتے نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے اسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ اس نے ہمیں سمجھایا کہ یہاں ہم ایسی بات نہیں کرتے بلکہ ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ امریکہ کی طرح یہاں ہم انہیں افریقی امریکی بھی نہیں کہتے۔ یہاں سب کینیڈین ہیں۔ ہمارے پوتے نے ہمیں شرمندہ کر دیا۔ ہمارے ملک میں تو کالے گورے کی اتنی تفریق ہے کہ شادی کرتے وقت پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی گوری ہے یا کالی؟ اس کالی گوری کے فرق نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جسے دیکھو یہ کریمیں اپنے چہرے پر تھوپ رہا ہے۔ اب چاہے ان کریموں سے چہرے کی جلد جھلس ہی کیوں نہ جائے مگر لگائیں گے یہی کریمیں۔ اس پر ہمارے ایک دوست نے بڑے پتے کی بات کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ اگر یہ کریمیں واقعی کالے رنگ کو گورا کرتیں تو آج افریقہ میں کوئی بھی کالا نہ ہوتا۔ یہ تو ہوئی کالے گورے کی بات۔ ہمارے ہاں تو مذہب، مسلک اور فرقہ بھی پوچھا جاتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے یہ بھائی اپنی یہ تفرقہ بازی یہاں بھی لے آئے ہیں۔ وہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یہاں بھی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کوشش ہی نہیں کرتے انہوں نے بنا بھی لی ہیں۔ خیر، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ان دنوں ہم یہاں پوری آزادی اور سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ یہاں کوئی شور شرابہ اور کوئی آپا دھاپی نہیں ہے۔ کوئی ایک دوسرے کو منہ بھر بھر کے گالیاں نہیں دے رہا ہے، اور کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ اور ہم دعا کر رہے ہیں کہ خدا کرے ہمارے ملک کو بھی ایسی ہی جمہوریت، ایسی ہی آزادی اور ایسا ہی سکون نصیب ہو جائے۔ آمین۔

تازہ ترین