• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان بھی عجب ڈھنگ کی مخلوق ہے۔ سو طرح سے رفو گری کرو مگر چاک داماں سے کچھ دھاگے نکل ہی آتے ہیں۔ اب دیکھیے نا، انسان کی ایک بلیغ مگر ناقابل اشاعت تعریف منٹو نے اپنے افسانے ٹھنڈا گوشت میں کی تھی۔ منٹو آزادہ رو ادیب تھے۔ صحافت منٹو کی صاف گوئی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میکسم گورکی نے ایک بالکل دوسرے زاویے سے انسان کی تعریف کی تھی۔ گورکی انقلابی ادیب تھے۔ انسانی تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ ہر انقلابی میں ایک روایت پسند چھپا ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے گزشتہ دنوں ہمارے ہاں انکشاف کیا گیا کہ ہر مرد میں ایک عورت بھی چھپی ہوتی ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔ تشدد، جبر، جنگ، تحکمیت اور استحصال کی آتشیں چٹانوں کے بھیتر سے تخلیق، ہمدردی اور محبت کے بیج پھوٹ سکیں تو اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے۔ گورکی نے اپنے ڈرامے لوئر ڈپتھس (پاتال) میں ایک مکالمہ لکھا ہے۔ واللہ کیا موتی پرو دیے ہیں۔
’’انسان ہی ابتدا ہے اور انسان ہی انتہا۔ انسان ہی سب کچھ ہے، سب کچھ انسان ہی کے لئے ہے۔ دنیا میں جو بھی اچھا ہے وہ انسان کے ہاتھوں کی پیداوار ہے یا انسانی ذہن کی تخلیق۔ انسان۔۔۔۔ اس لفظ ہی سے کیسی عظمت ٹپکتی ہے۔ انسان کی عزت کی جانی چاہیے۔ انسان پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں، انسان احترام کئے جانے کا حق رکھتا ہے۔‘‘
مجھ طالب علم کی کیا بساط کہ میکسم گورکی کی تشریح کروں لیکن ایک خیال سا ہے کہ گورکی یہاں محض ایک ڈرامائی مکالمہ نہیں لکھ رہا، بلکہ ایک فلسفہ بیان کر رہا ہے۔ انسان میں آخر ایسا کیا ہے کہ گورکی جیسے صناع نے توصیف کی انتہا کر دی۔ انسان نہ تو ہاتھی جیسا قوی الجثہ ہے، نہ چیتے جیسا برق رفتار، اس کے رگ پٹھے شیر جیسے توانا ہیں اور نہ وہ سانپ کی طرح دانت میں زہر کی تھیلیاں لئے پھرتا ہے۔ انسان بھیڑیے جیسا خونخوار نہیں، جسمانی قوت میں ہزاروں جاندار انسان سے بہتر قویٰ رکھتے ہیں۔ انسان تو ایک کمزور سا جاندار ہے۔ پیدا ہونے کے کئی برس بعد تک اپنا تحفظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ قدرتی طور پر میسر آنے والی غذا کو قابل ہضم بنانے کے لئے اسے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ چند ساعت کا تشدد برداشت نہیں کر سکتا۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ انسان کا جسم کمزور ہے اور ذہن ناقابل تسخیر۔ انسانی تاریخ انسان کے بدن کی کمزوری اور ذہن کی ناقابل شکست قوت سے عبارت ہے۔ استاد محترم ڈاکٹر اقبال احمد نے الجزائر سمیت بے شمار ممالک میں جنگ اور تصادم کے مشاہدات کر رکھے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ گوریلا تربیت میں بھی گرفتار ہو جانے والے رفیق سے صرف یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ممکنہ طور پر 24گھنٹے تک ضروری معلومات روکے رکھے۔ تا کہ اس کے رفقا حفاظتی تدابیر اختیار کر سکیں۔ تاہم اگر گرفتار سپاہی جسمانی اذیت برداشت نہ کر سکے تو اسے بزدلی کا طعنہ دینا حد درجہ سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں سپاہیوں پر حکم چلانے والا فوجی کمانڈر بھی جنگی قیدی بننے کی صورت میں چند فٹ اونچا اور چند سو پاؤنڈ کا عامی انسان رہ جاتا ہے جسے خوراک اور پانی کی ضرورت پیش آتی ہے اور حوائج ضروریہ کے لئے پہریدار سے اجازت مانگنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد نامعلوم زمانوں سے جبر کا ہتھیار چلا آ رہا ہے۔ ابھی تک انسانی معاشرہ جبر سے جنم لینے والی ناانصافی سے نجات نہیں پا سکا۔ تشدد ناانصافی کا ہتھیار ہے اور تشدد کے خوف سے آزاد معاشرہ ہی انصاف اور شفافیت کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ہم ایسے پسماندہ معاشروں کے باشندے قانون کو تشدد کا آلہ کار سمجھتے ہیں اور انصاف کو سزائیں بانٹنے کا نظام۔ اس سوچ میں ایک بنیادی سقم پایا جاتا ہے۔ اگر آپ کے مزاج عالی پر گراں نہ گزرے تو میں اس نکتے کی وضاحت کے لئے بوڑھے گیلیلیو کو یاد کر لوں۔
سولہویں صدی میں پیدا ہونے والا گیلیلیو مشاہداتی سائنس کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے بے شمار سائنسی نظریات میں سب سے متنازع نظریہ یہ تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ گیلیلیو کوپرنیکس کے نظریات کی تائید کر رہا تھا۔ اس زمانے میں علم پر پادریوں کا اجارہ تھا۔ 1615 میں پوپ نے اسے کلیسا کی احتسابی عدالت میں طلب کر لیا۔ اس کے نظریات کو ’’احمقانہ اور لغو قرار دینے کے علاوہ مقدس صحائف کی مخالفت‘‘ کا مرتکب قرار دیا۔ گیلیلیو کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے خیالات سے تائب ہونے کا اعلان کرے نیز باقی ماندہ زندگی اپنے گھر پر نظر بندی میں بسر کرے۔ گیلیلیو نے اپنے خیالات سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے حامیوں نے جب اسے کلیسا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر ملامت کی تو دور اندیش گیلیلیو کا جواب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس نے کہا، "میرے اقرار کرنے یا انکار کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور گھومتی رہے گی۔"
گیلیلیو کا ذکر یہاں اس لئے چلا آیا کہ سات جولائی 2017 بروز جمعہ اسلام آباد میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں خواجہ آصف، چوہدری نثار علی، اسحاق ڈار، سرتاج عزیز، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد ذکااللہ، فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کا اہم ترین نکتہ وزیر اعظم سے منسوب یہ بیان تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ یہ ایک نیم ملفوف اشارہ تھا کہ قومی پالیسی پر برسوں سے جاری کشمکش پر فیصلہ کن موقف اختیار کر لیا گیا ہے۔ وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا۔یہ سطریں دس جولائی کی صبح لکھی جا رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے اس تاریخی اجلاس میں ابھی کچھ گھنٹے باقی ہیں جس میں جے آئی ٹی کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ مجھ سمیت کوئی بھی آئندہ پیش رفت کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ تو اس وقفہ گل میں اختر حسین جعفری کی کچھ سطریں پڑھ لیتے ہیں۔ اس میں کہیں نہ کہیں گیلیلیو کا ذکر ضرور آیا ہے اگرچہ اس قدر مبہم کہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔
مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا
ندی رک رک کے چلتی ہے
تکلّم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا
ہوا پسپا جہاں پانی
جہاں موجوں نے زنجیرِ وفا پہنی، سپر گرداب کی رکھ دی
عَلَم رکھے ، قلم رکھے
خفا بادل نے جن پایاب دریاؤں سے منہ موڑا
جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے
طنابِ راہ کٹتی ہے، کہیں خیمہ اکھڑتا ہے
وہاں سے دْور ہے ندی
وہاں سے دْور ہے بچہ کہ اس کے پاؤں
دریاؤں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
اسے چلنا نہیں آتا
فصیلِ صبحِ ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا

تازہ ترین