• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران اور نواز شریف کے کیس میں متضاد دلائل

Todays Print

اسلام آباد (احمد نورانی)پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے وکیل نے پاناما کیس میں، جس کی دفعہ 184(3) کے تحت سماعت ہورہی ہے آئین کی دفعہ 62(1)(F)کے تحت وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا مطالبہ کیا ہے، خود اپنے ہی دلائل کو اور وزیراعظم کی نااہلی کے کیس کو سپریم کورٹ میں یہ دلیل دے کر زمین بوس کردیا کہ دفعہ 184(3) کے دائرہ کار پر عمل کرتے ہوئے قانون ساز کو دفعہ 62 اور 63 استعمال کر کے نااہل کرنا غلط ہوگا۔ عدالت ہمیشہ مخالف فریق کے وکیل کی جانب سے پیش کردہ دلائل اور شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔

ایک وکیل ایک خاص سوال پر کوئی موقف اختیار کر کے چند روز کے اندر اسی سوال پر اپنا موقف تبدیل نہیں کر سکتا۔ نعیم بخاری کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ کسی پارلیمنٹرین کو آئین کی دفعہ 62 اور 63 استعمال کرتے ہوئے دفعہ 184(3) کے تحت نااہل نہیں کیا جاسکتا۔ 25 جولائی کی سماعت کے دوران نعیم بخاری نے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے نہ صرف یہ دلیل دی بلکہ ان نکات کا بھی حوالہ دیا جو معزز جج، جسٹس اعجاز افضل خا ن اور معزز جج، جسٹس شیخ عظمت سعید نے 20 اپریل کے پاناما کیس کے فیصلے میں دیے تھے اور زور دیا تھا کہ 184(3) کے دائرہ کار کے تحت دفعہ 62 اور 63 استعمال کرنا ناانصافی ہوگی۔

نعیم بخاری نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نمائندگی کرتے ہوئے اور انہیں نااہلی سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید کے نوٹ کا حوالہ دیا کہ دفعہ 62(1)(F) کو سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی انجینئرنگ کے لئے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی نہ ہی اس کو خود اس اختیار کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اخلاقی بنیاد پر امیدوار کی جانچ پڑتال کرے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے 20 اپریل کے پاناما فیصلے میں اپنے نوٹ میں تحریر کیا تھا کہ ’’ہمارے آئینی انتظام کے تحت، پاکستان پر کسی ادارے یا چند انفرادی اشخاص کے منتخب کردہ نہیں بلکہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو حکومت کرنا ہے۔‘‘

بخاری نے 20 اپریل کے اکثریتی فیصلے میں جسٹس اعجاز افضل خان کے اعلامیے پر بھی انحصار کیا ہے کہ عدالت خود کو ایسا کوئی اختیار استعمال کرنے کی جانب مائل محسوس نہیں کرتی جو اسے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت جو بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے یا کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت نہیں دیا گیا۔نعیم بخاری تین رکنی بینچ کے سامنے دلائل دے رہے تھے جس کی سربراہی جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے اور جو ن لیگ کے حنیف عباسی کی فائل کردہ درخواست کی سماعت کر رہے تھے۔ پٹیشن میں اثاثے ظاہر نہ کرنے، آف شور کمپنیوں کی موجودگی اور غیرملکی امداد لینے والی پارٹی سے تعلق کی بنیاد پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ صرف نعیم بخاری نہیں ہیں جنہوں نے عدالت میں یہ دلیل دی ہے اور اس پر یقین رکھتے ہیں، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی دفعہ 62 اور 63 کو آئین کی ناقابل عمل دفعات سمجھتے ہیں۔ ایک بیان میں عمران خان کہہ چکے ہیں کہ دفعہ 62 اور 63 پر صرف فرشتے ہی پورے اتر سکتے ہیں۔ اسمبلی میں کسی کو بھی دفعہ 62 اور 63 استعمال کر کے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایک اور انٹرویو میںعمران خان نے کہا کہ دفعہ 62 اور63 لاگو کرنا مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں جو اس کی حمایت کرتی ہیں وہ بھی ان دفعہ کو کبھی لاگو نہیں کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کبھی ان دفعات کو استعمال کیا تو وہ خود کو بے توقیر کرے گا۔ ایک اور بڑے وکیل اعتزاز احسن نے دفعہ 62 اور 63 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بھی دفعہ 62 اور 63 پر پورے اترنے میں کامیاب نہ ہوتے۔

تازہ ترین