• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سی کاریں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے گیٹ میں قطار در قطار داخل ہوئیں ۔ہر کارکے آگے اسٹیل کا راڈ موجودتھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہر کار کے ڈرائیور نے اسٹیل کے اُس راڈ پر جھنڈاچڑھا دیا اور پھرپارکنگ میں جھنڈے والی گاڑیوں کا اتوار بازار لگ گیا۔آئین کے تحت جتنے وزیر بنائے جا سکتے تھے تقریباًاُتنے یعنی سینتالیس بنا دئیے گئے ہیں ۔اس سلسلے میں سینتالیس کے عدد کی اہمیت کو بھی سامنے رکھا گیا تھا۔سات اور چار کو جمع کیا جائے تو گیارہ بن جاتے ہیں اور گیارہ کےعدد کی پراسراریت کواہل ہندسہ خوب پہچانتے ہیں ۔ایک آدھ دن میں ان تمام وزارتوں کے پارلیمانی سیکرٹری بھی بنا دئیے جائیں گے۔۔پانچ سات وزیر اعظم کے مشیر بھی ضروری ہیں ۔یعنی آنے والے دنوں میں یہ تعداد ایک سوسے کہیں بڑھ جائے گی ۔اس کثیر تعداد پہ اہل لاہور نے افسوس کے ساتھ تبصرہ کیا کہ اتنےلوگوں میں حمزہ شریف کا نام شامل نہیں ہوسکا۔ان وزیروں میں کسی کو بھی پارلیمانی سیکرٹری بنا کر حمزہ شریف کو وزیر بنایا جاسکتا تھا۔کیا حمزہ شریف نے بھی چوہدری نثار علی خان کی طرح خود وزیر بننے سے انکار کردیا ہے یاکوئی اور معاملہ ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں حمزہ شریف نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ووٹ بھی نہیں دیا ۔تقریب ِ حلف وفاداری میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی شرکت نہیں کی حالانکہ اس دن وہ مری میں حمزہ شریف کے گھر میں موجود تھے ۔کچھ معاملات ہیں جنہیں میڈیا میں آنے سے روکا جارہا ہے ۔چوہدری نثار علی خان کسی وقت بھی حقائق سے پردہ اٹھا سکتے ہیں ۔یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ اتنے زیادہ وزراء کی کیا ضرورت تھی۔قومی اسمبلی کے نون لیگ کے ارکان 188 ہیں جن میں سے 35 اسپیشل سیٹ پر خواتین ایم این اے ہیں ۔پانچ چھ اسپیشل سیٹ اور ہیں ۔یعنی تقریباً ہر شخص کے پاس اگلے دس ماہ تک کوئی نہ کوئی عہدہ ضرور ہوگا ۔شاید نون لیگ کے پاس تمام ممبران کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کایہی وہ واحد طریقہ تھا ۔
یہ انگارہ بھی دہک رہا ہے کہ شہباز شریف نے وزیراعلیٰ شپ چھوڑنے سے خود انکار کیا ہے یا انہیں ڈیڑھ ماہ بعد وزیر اعظم بنانے کا اعلان دراصل ایک ’’فریبِ دلنواز ‘‘ تھا۔ان کےلئے بھی اور ان کے چاہنے والوں کےلئے بھی ۔نون لیگ کی صدارت کا بھی فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا ۔زیادہ امکانات یہی ہیں کہ وہ بھی بیگم کلثوم نواز کے حصے میں آئے گی یعنی مستقبل میں نون لیک کا قانونی نام شین لیگ نہیں کاف لیگ ہوگا ۔چونکہ پہلے بھی ایک قاف لیگ موجود ہے اس لئے شایددونوں میں نقطوں میں فرق کو ملحوظ ِ خاطر رکھا جائے گا ۔یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کے متعلق نون لیگ کے پالیسی میکرز میں اختلافات بہت گہرے ہوگئے ہیں ۔حکومتی احتجاجی تحریک کسی بھی سوچنے سمجھنے والے کے حلق سے نہیں گزر رہی ۔شاید یہ دنیا کی وہ پہلی احتجاجی تحریک ہوگی جو حکومتِ وقت شروع کرے گی ۔
ایک سلگن یہ بھی ہے کہ وزارتوں میں ردوبدل اور نئے اور وزراء کے تقرر کے پس منظر میں مختلف میسجز موجود ہیں ۔ خواجہ آصف کووزارتِ خارجہ دے کر چوہدری نثار کو کوئی پیغام دیا گیا ہے ۔سنا ہے انہوں نے ایک بارنواز شریف سے وزیر خارجہ بننے کی خواہش کی تھی ۔طلال چوہدری اور دانیال عزیز وغیرہ کو وزیر بنا کر نون لیگ کےاُس گروپ کومیسج دیا گیا جواداروں سے لڑائی پر کسی صورت میں بھی تیار نہیں جس کے سر خیل وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں ۔
مشاہد اللہ کو وزارت دےکراسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا گیا ہےکہ اُس نے جو کچھ کہا تھا اُس میں ہماری منشا شامل تھی ۔اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا کر ان کے خلاف تفتیش کرنے والوں سے کہا گیا ہے کہ تمہیں ایک وزیر خزانہ کو گرفتار کرنا ہوگا۔
اگلے تیس دن پاکستانی سیاست و حکومت کےلئے بہت اہم ہیں۔امکانات میں ہے کہ وزارت ِ خزانہ کسی اور کے سپرد کی جائے گی ۔اُس وزیر کی تلاش وزیر اعظم نے ابھی سے شروع کر دی ہے ۔خواجہ سعد رفیق کے کیس کا فیصلہ اِنہی تیس دنوں میں آنے کا قوی امکان ہے۔ ریلوے کی وزارت کےلئے نئے امیدوار تیار ہوجائیں ۔ریفرنس دائر ہونے کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ضروری سمجھی جارہی ہیں ۔ظفر حجازی کے بعد نیشنل بنک کے صدر تک بھی کسی وقت قانون کے لمبے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں ۔توہین ِ عدالت کے مقدمے میں بھی کچھ لوگ نااہل ہونے والے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری آٹھ اگست کو لاہور پہنچنے والے ہیں اور سانحہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والوں کے قصاص کےلئے اور باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کےلئے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔عائشہ گلالئی کے والد اور نون لیگ کی ایک اہم شخصیت کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر آنے والی ہے ۔کرپشن کے کیس میں عائشہ گلالئی کو جلد ہی ضمانت قبل ازگرفتاری کی ضرورت پڑنے والی ہے ۔پشاور ہائی کورٹ میں عائشہ گلالئی کی دماغی صحت کے چیک اپ کےلئے ایک درخواست جمع کرائی جارہی ہے جس کے مطابق وہ ڈپریشن کی مریضہ ہیں اور کئی سال سے ڈپرپشن کی ادویات استعمال کررہی ہیں ۔
سپریم کورٹ میں ایک درخواست یہ بھی دی جارہی ہے کہ یہ جو’’ اقامہ ‘‘ہے ۔اس کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ چونکہ عرب ممالک میں کسی غیرملکی کو جو حقوق دیئے جاتے ہیں۔ اقامہ اس کی آخری حد ہے۔ یعنی ایک طرح سے یہی عرب ممالک کی طرف سے کسی غیرملکی کودی جانےوالی شہریت ہے۔ اس لئے اقامہ رکھنے کا مطلب دہری شہریت رکھنا ہے اور اس معیار پر جتنے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقامہ ہولڈر ہیں ان کی رکنیت فوری پر منسوخ کی جائے۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ آ گیا تو وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ دونوں کےلئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ آئی جی آزاد کشمیر کو ڈی جی ایف آئی اے لگانے کے معاملہ پر بھی کئی تحفظات سامنے آنے والے ہیں۔ سپریم کورٹ اصغر خان کیس پر عمل درآمد کےلئے ایف آئی اے سے پوچھنے والی ہے۔ یہ بھی پانامہ کیس کے فیصلے میں موجود ہے کہ سپریم کورٹ کا مقرر کردہ جج نیب کے ساتھ ایف آئی اے میں بھی ایسے کیسز کی نگرانی کرے گا۔ کئی ہوٹر بجاتی ہوئی گاڑیاں خاموش ہوجائیں گی۔ اسٹیل کے راڈوں سے کئی جھنڈے اتر جائیں گے۔

تازہ ترین