• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال لگ بھگ بیس لاکھ مسلمانوں نے حج کا فریضہ انجام دیا۔ ان میں ایشیااور افریقہ کے دور افتادہ علاقوں سمیت یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور پڑوس کی خلیجی ریاستوں کے باشندے شامل ہیں۔ جدہ میں قائم بین الاقوامی اسلامی نیوز ایجنسی (آئی آئی این اے) کے مطابق اس سال حج میں برطانیہ سے25ہزار500، روس سے20ہزار500، امریکہ سے 17ہزاراور فرانس سے 10ہزارمسلمانوں نےشرکت کی۔ امسال ایران سے بھی حاجیوں کی بھرپور تعداد شریک ہوئی حالانکہ آجکل ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔2015 میں حج کے دوران بھگدڑ میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں 500کے قریب ایرانی بھی شامل تھے۔ جس کے فوراً بعد ایران اور سعودی حکومتوں کے درمیان الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، تہران میں سعودی سفارتخانے پر ایرانی شدت پسندوں نے حملہ کردیا جس کے بعد سعودی عرب نے سفارتی تعلقات منقطع کردیئے۔ اس کے نتیجے میں گزشتہ سال ایرانی حج پر نہیں جا سکےتھے تاہم اس سال حالات میں قدرے بہتری آئی اور آئی آئی این اے کے مطابق حالیہ حج میں 86ہزار ایرانیوں نے شرکت کی۔
اس کے برعکس سعودی عرب کی ہمسائیگی میں واقع چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کی کہانی قدرے مختلف ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان وسیع زمینی سرحد موجود ہے مگر اس کے باوجود قطری ذرائع کے مطابق اس سال ان کے صرف درجنوں شہری ہی حج پر جاسکے۔ اگر سعودی میڈیا کے ان دعوؤں کو بھی صحیح تسلیم کیا جائے کہ سعودی عرب نے1ہزار340قطریوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیدی تب بھی یہ گزشتہ سال کی تعداد سے بہت ہی کم ہے جب 12ہزار قطریوں نے فریضہ حج انجام دیا تھا۔ اس سال جون کے اوائل میں سعودی قیادت میں کئی خلیجی اور عرب ریاستوں نے قطر کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سفارتی تعلقات ختم کردیئے بلکہ اس پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں بھی عائد کیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی تنازع بڑھتا ہی گیا اور اس نے حج جیسے مقدس مذہبی اور روحانی فریضے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے الزامات عائد کئے۔ جولائی کے اواخر میں قطر نے سعودی عرب پر الزام لگایا کہ حج پر جانے والے اس کے شہریوں پر مختلف قسم کی بلا جواز پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں قطر نے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے مذہبی آزادی کے دفتر میں باضابطہ ایک شکایت بھی درج کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سعودی حکومت نے ان ’’بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے جو مذہبی آزادی کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘
اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سعودی حکومت نے اگست کے وسط میں یہ حیرت انگیز اعلان کیا کہ وہ قطری حاجیوں کے لئے نہ صرف اپنی سرحد کھول دے گا بلکہ ان کیلئے شاہ سلمان کی جانب سے مفت پروازوں اور رہائش کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ تاہم یہ دعویٰ جلد ہی ایک سیاسی اسٹنٹ ثابت ہوا کیونکہ سعودی حکومت نے یہ اعلان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور قطر کے شاہی خاندان کے ایک گمنام رکن شیخ عبداللہ الثانی جو قطر سے باہر رہتے ہیں اور شاہی خاندان کی حریف شاخ سے تعلق رکھتے ہیں سے ملاقات کے بعد کیا۔ شیخ عبداللہ الثانی کی شاہی خاندانی شاخ پچھلی چار دہائیوں سے حکومت سے باہر ہے۔ اس لئے سعودی ولی عہد سے اس کی ملاقات اور پھر حاجیوں کے لئے اعلان سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ سعودی عرب قطر کے موجودہ امیر کو غیرمستحکم کرنے اور دوحہ میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کررہا ہے۔ قطر نے اگرچہ اپنے شہریوں کیلئے سعودی شاہ کی جانب سے اعلان کردہ سہولتوں کا خیرمقدم کیا تاہم اس نے ساتھ ہی سعودی عرب کو خبردار کیا کہ وہ حج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے باز رہے۔
یہ تنازع دوران حج بھی جاری رہا اور اب جبکہ حج اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اس جھگڑے کے مضر اثرات ہنوز محسوس کئے جارہے ہیں۔ حج سے صرف دو دن قبل قطر نے سعودی میڈیا کے ان ’’دعوؤں‘‘ کی مذمت کی کہ دوحہ اپنے شہریوں کو حج میں شرکت کرنے سے روک رہا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ نے الٹا الزام عائد کیا کہ سعودی حج وزارت نے اس کے شہریوں کے خلاف منصوبہ بندی کی اور حاجیوں کی حفاظت کے لئے دونوں ممالک کے اداروں کے درمیان رابطوں کو منجمد کرکے ان کے حج کو واقعتاً ناممکن بنادیا۔ سعودی عرب کے متعلقہ حکام نے کافی کوشش کہ سعودی حکومت کے خلاف حج کو سیاسی آلہ بنانے کے تاثر کو زائل کیا جاسکے۔
اس تنازع کی وجہ سے سعودی عرب کے حریفوں کو مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کیلئے بین الاقوامی انتظام و انصرام کی پرانی بحث دوبارہ چھیڑنے کا موقع مل گیا ہے۔ قطر نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی حالیہ شکایت کے دوران بھی اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے حج کے بین الاقوامی انتظام کا مطالبہ کردیا۔ اس کے جواب میں سعودی حکومت نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کو اعلان جنگ سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی قطر پر حج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ حج کی تاریخ میں سب سے خونین 2015کی بھگدڑ جس میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد جاں بحق ہوگئے، کے فورا بعد ایران نے بھی حج کو بین الاقوامی تحویل میں دینے کے خمینی دور کے مطالبے کی تجدید کی تھی۔
سعودی حکومت سے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی چارہ نہیں کہ سعودی عرب کے حکمران حج کا بہترین انتظام مہیا کرنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہر سال حجاج کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر بھیڑ کو منظم اور محفوظ رکھنے کیلئے مؤثر اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں آل سعود نے مقدس مقامات کی توسیع اور بہتری کیلئے ابتک اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس سال سعودی وزارت تعلیم نے پہلی بار حاجیوں کے بچوں کیلئے نرسریاں قائم کیں جہاں وہ اپنے چھوٹے بچوں کو محفوظ ماحول میں چھوڑ کر بےفکری سے ارکان حج کی ادائیگی کرسکتے تھے۔ یہ غیرمعمولی سروس ہزاروں والدین کیلئے یقینی طور پر اطمینان اور سکون کا باعث رہی ہوگی جو اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ فریضہ حج انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سال 15ہزار سے زائد افسران حجاج کی حفاظت اور امداد کیلئے ہمہ وقت مصروف تھے۔ اس کے علاوہ 3ہزار سے زیادہ حفاظتی اور مددگار مشینیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مامور تھیں۔
حج کے لئے کیا جانے والا سعودی انتظام نہ صرف بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے بلکہ کئی معاملات میں اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں حج کی عالمی نگرانی کا مطالبہ کرنا نہ صرف اس مقدس فریضے کو سیاست کی نذر کرنا ہے بلکہ اس کو عملی طور پر نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ تاہم سعودی حکام کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ حج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے احتراز کریں تاکہ ریاض کے نقطہ نظر سے نہ دیکھنے والے ممالک یا گروہ بھی بغیر کسی پابندی کے حج کا فریضہ انجام دے سکیں۔

تازہ ترین