• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 120میں ضمنی انتخاب کی پولنگ کا بلاشبہ پاکستان کے سیاسی جمہوری عمل میں ایک بڑا انتخابی معرکہ ہوگا۔ آنے والے سالوں میں تجزیہ کار اس حلقے میں آج اختیار کئے گئے ووٹرز کے رویے کے حوالے دیتے رہیں گے۔ حلقے میں قومی اسمبلی کی نشست پر تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے والے رکن قومی اسمبلی جناب میاں نوازشریف کے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل (برائے عام انتخاب) ہونے پر خالی ہوئی ہے، گزشتہ روز یعنی آج کے پولنگ ڈے سے صرف دو روز قبل اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے ہی لارجر بنچ نے نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی ہے۔ گویا سابق وزیراعظم کی خالی نشست، جو ان کی عملی سیاست کا سب سے بڑا اور عملاً پاور بیس تھا، میں میاں صاحب کے ہمیشہ کےلئے حکومت سے محروم ہونے کے صرف دو روز بعد ہی ان کے چھوڑے حلقے کے ووٹرز کو موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنے سابق لیڈر، جن کا پاناما لیکس کے تناظر میں بہت کچھ خلاف قانون و آئین بے نقاب ہو چکا، کے بارے میں رائے دیں کہ اب وہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، کیونکہ نااہل ہونے کے باعث اب بیگم نوازشریف، محترمہ کلثوم نواز ہی اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار ہیں، جو خود تو لندن میں زیر علاج ہیں، ان کی انتخابی مہم بھی نااہل ہونے والے وزیراعظم کی لاڈلی بیٹی مریم صاحبہ چلا رہی ہیں جن کو مستقبل کا وزیراعظم بنانے کی عملی تیاری میاںصاحب نے اپنے آخری اقتدار کے آخری سال میں شروع کردی تھی۔ خود محترمہ بھی پاناما پیپر لیکس سے بے نقاب ہونے والی کرپشن کی ملزمہ ہیں اور تفتیش کے لئے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی میں پیش ہو چکی ہیں۔ یوں قانونی تو نہیں سیاسی اعتبار سے محترمہ کلثوم کا ووٹ اصل میں نوازشریف کو ہی ووٹ ہوگا۔
اس پس منظر نے حلقہ 120میں آج کے ضمنی انتخاب کو بے حد اہم، دلچسپ بنا دیا اور حساس بھی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی جماعت ن لیگ مسلسل عدالتی فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے ’’الیکشن نتائج‘‘ کو عوامی عدالت قرار دے چکے ہیں اور طرح طرح سے واضح کر چکے ہیں کہ و ہ عوامی عدالت کو ہی اصلی عدالت مانتے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ بہت حساس اور ملکی آئینی و قانون کے لئے بڑا چیلنج ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کو ووٹرز کی امکانی حاصل طاقت (عوامی عدالت) کے زور پر للکارا جارہا ہے۔ یہ بڑا تشویشناک اور ریاستی رٹ کے لئے سوال ہے۔
لندن میں زیر علاج محترمہ کلثوم نواز کو اس معرکے میں بطور امیدوار میاں نوازشریف ہی سمجھا جارہا ہے، کیونکہ یہ حلقہ نااہلیت سے پہلے کے 35سال میں سابق وزیراعظم کا سکہ بند حلقہ ہے جہاں اب ان کی بیگم امیدوار اور ن لیگی انتخابی مہم کا مرکز و محور محترمہ مریم نواز ہیں۔ ان کے مقابل عوامی مزاج رکھنے والی میڈیکل ڈاکٹر محترمہ یاسمین راشد ہیں، جنہوں نے الیکشن 13میں میاں نوازشریف کے 91ہزار ووٹوں کے مقابل 52ہزار ووٹ لے کر خود کو آئرن لیڈی ثابت کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس حلقے میں عمران خان کے شدید مطالبے پر دھاندلی اور سنگین انتخابی بے قاعدگیوں کی تحقیق کے نتیجے میں 29ہزار ایسے ووٹوں کی نشاندہی ہوئی جن کی تصدیق ہی نہیں ہوئی کہ یہ کس کے ہیں؟ لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ ووٹ کاسٹ ہوئے اور گنے بھی گئے۔ ماہر تجزیہ کار ان ووٹوں کو ن لیگ کی ’’ناجائز حربوں سے تیار کی گئی پولنگ ڈے مینجمنٹ‘‘ کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ واضح شک تویہ ہی ہوتا ہے۔ تیسرے قابل ذکر امیدوار اللہ بخشے استاد گرامی پروفیسر وارث میر کے صاحبزادے فیصل میر ہیں جو پی پی کے امیدوار ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔
حلقہ 120شہر میں قومی اسمبلی کے حلقوں کے مقابل، سیاسی شعور، تعلیم اور مخصوص متوسط طبقے کی عملی سیاست میں دلچسپی اور سرگرمی کے اعتبار سے بہت آگے ہے۔ جب قدیم فصیلی لاہور (والڈ سٹی‘‘ میں مزید آبادکاری کی گنجائش ختم ہوگئی تو انگریز دورکے بعد بقیہ لاہور شہر کی جو اربنائزیشن شروع ہوئی، یہ حلقہ زیادہ تر ان ہی آبادیوں پر مشتمل ہے جو راوی کے کنارے قصور پورہ اورکریم پورہ سے لے کر بلال گنج، سنت نگر، شام نگر، کرشن نگر، ساندہ کلاں، گلشن راوی، نواںکوٹ، بابو صابو اور نیازی چوک کوکور کرتا ہے۔ دوسری جانب یہ مزنگ اور لوئر مال روڈ کےساتھ ساتھ پرانی و نئی انارکلی تک محیط ہے۔ شہر لاہور کا یہ حلقہ دربار داتا گنج بخش ؒ، مینار پاکستان (آزادی چوک)، کربلاگامے شاہ، گورا قبرستان، اکھاڑہ رسم ہند امام گاماں پہلوان، مزار پیر مکیؒ اور مزار حضرت بابا موج دریاؒ، انگریزوں کا گورا قبرستان، ضلع کچہری، دیو سماج کالج و اسکول (موجودہ اسلامیہ کالج و مسلم ہائی اسکول) سیشن کورٹس، ہندو آشرم، گورنمٹ کالج، مقبرہ انارکلی، چوبرجی، اولڈ رائفلز رینج، سول سیکرٹریٹ، پنجاب پبلک لائبریری، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، اردو بازار، سر گنگا رام کی رہائش گاہ (موجودہ ہیلے کالج) اور راوی روڈ پر سمادھی، پیپلز ہائوس، (ایم پی ایز کا ہاسٹل) فائونٹین ہائوس (سرگنگارام کا قائم کردہ ری میرج ایسوسی ایشن کا مرکز، مزار زیب النساء (نواں کوٹ) اسی اہم حلقے کا تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے۔
خاکسار کا جم پل اسی حلقے کے وسطی محلے کرشن نگر (اسلام پورہ) کا ہے۔ برسوں اس حلقے کا ووٹر رہا۔ یوں سیاسی ہوش آتے ہی یہاں کے تمام سیاسی و سماجی رویوں کا مطالعہ خود بخود ہوتا رہا۔ میں حلقے کی ڈیمو گرافی کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ آباد کار جو قیام پاکستان کے بعد سے یہاں آباد ہیں۔ یہ بھی مقامی لاہوریوں اور دہلی اور مشرقی پنجاب سے آئے مہاجرین پر مشتمل ہے جن کی بڑی اکثریت سرکاری ملازم تھی اور یہ لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث تحریک پاکستان میں ہی خاصی سیاسی ہوچکی تھی۔ یہ زیادہ تر کرشن نگر، سنت نگر، شام نگر اور داتا دربار کے گردونواح میں آباد ہیں۔ تاہم تین عشرے کے بعد ان آبادیوں اور راوی کنارے کے درمیان زرعی قطعات اجڑ کر بغیر کسی منصوبہ بندی کے بے ہنگم پکی آبادیاں بننے لگیں اور اب یہ پہلی آبادی کے مساوی اضافے کے ساتھ ایک گنجان آباد حلقہ 70کے انتخابات میں اس حلقے کا بڑا حصہ لاہور میں نظریاتی سیاست کا مرکز تھا۔ اب جو گزرے چار عشروں میں حلقے اورآبادی دونوں میں وسعت آئی ہے۔ یہ ان گھرانوں پر مشتمل ہے جو لاہور کے گردونواح کے بڑے شہروں اور قصبات سے یہاں ملازمتوں اور کاروبار کے سلسلے میں آکر آباد ہوئے۔ جنگ ستمبر کے بعد سرحد سے اجڑنے والی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی یہیں آباد ہوا۔ اس کی بھاری اکثریت ن لیگ سے انفرادی طور پر نوازی گئی ہے۔ مثلاً یہ حلقہ ناجائز تجاوزات اور ایل ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں سے اٹا پڑا ہے۔ تاجر اور دکانداروں کی بھرمار ہے جو زیادہ تر ن لیگ کے حامی ہیں لیکن بنیادی سہولتوں کا فقدان یہاں بڑھتا گیا۔
بلاشبہ یہ سابق وزیراعظم کا سکہ بند حلقہ بنتا گیا۔ لیکن الیکشن 13میں اس حلقے میں نئی سیاسی حقیقتوں نے جنم لیا۔ سب سے بڑی پی ٹی آئی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ پی پی سکڑ کر گم ہی ہوگئی۔
یہاں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے گھرانے ووٹ کے اعتبار سے تقسیم ہوگئے۔ نوجوان اور خواتین کی بڑی تعداد کی سوچ میں تبدیلی کا انقلاب 19اکتوبر کے پی ٹی آئی کے جلسے سے امڈ کر آیا اور سب سے زیادہ اس حلقے کو متاثر کر گیا۔ الیکشن 13میں پی ٹی آئی کی موجودہ امیدوارمحترمہ یاسمین راشد نے میاں نوازشریف کا کمال مقابلہ کر کے 51ہزار ووٹ لئے جو اس حلقے میں ووٹرز کے رویے کا بریک تھرو تھا۔ واضح رہے کہ حلقے سے 29ہزار ڈالے گئے ووٹوں کی تصدیق نہ ہوسکی کہ یہ کس کے ہیں۔ اس کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو ڈاکٹر صاحبہ کی پوزیشن خاصی مستحکم ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنی انتخابی مہم کی دست راست محترمہ عندلیب عباس کے ساتھ مل کر کمال کی ڈور ٹو ڈور رابطہ مہم چلائی جس سے جہانگیر بدر مرحوم کی انتخابی مہم جو وہ اپنے حلقے والڈ سٹی میں چلاتے رہے، کی یاد تازہ ہوگئی۔ تجزیوں میں اسے ن لیگ کی واضح سیٹ، نئے حقائق کے باعث ڈاکٹر یاسمین کی طرف سے بڑے اپ سیٹ اور سخت مقابلے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ خاکسار کے نزدیک الیکشن 13میں ہی برابر کا مقابلہ ہوا تھا (اگر 29ہزار غیر مصدقہ ووٹوں کو اہمیت دی جائے) پی ٹی آئی اپنی سیاسی انتظامی سکت سے اور الیکشن انتظامیہ 24ہزار ووٹوں کا مسئلہ مل کر پائی تو انتظامیہ کی مداخلت کے باوجود محترمہ کلثوم اور ڈاکٹر یاسمین راشد میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ مہم کے آخری دن زکوٰۃ کمیٹیوں کو زکوٰۃ حاصل کرنے والوں کے ووٹ حاصل کرنے کا جو اسکینڈل سامنے آیا ہے اس کا فائدہ اس تعلیم یافتہ حلقے میں ڈاکٹر یاسمین کو ملے گا کہ یہ حج اسکینڈل کی نوعیت کا ہے کہ اس میں کرپشن ہوئی تھی اور یہاں مذہب برائے سیاسی فائدہ کا الزام ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ یہاں بڑی تعداد میں وکلاء اور اساتذہ رہتے ہیں جو کمیونٹی کی سطح کے موثر اوپینین میکرز ہیں اور وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں ن لیگ کے خلاف جاری قانونی جدوجہد کے نتائج کی تشریح کررہے ہیں اس سے ن لیگ کے ’’عوامی عدالت‘‘ کا بیانیہ بھسم ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کو علامہ طاہر القادری کی حمایت بھی اپنا رنگ دکھائے گی۔

تازہ ترین