• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی قانونی تنازعات اور پاکستان کی ناکامیاں، اربوں کا نقصان

Todays Print

اسلام آباد (زاہد گشکوری)پاکستان کو آنے والے مہینوں میں 85 ارب روپے کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان پر کروڑوں ڈالر کا یہ جرمانہ متعدد عالمی قانونی تنازعات اور مقدمے بازی کے شرمناک نتائج پر کیا گیا ہے۔ تازہ ترین نتیجہ اس وقت آیا جب لندن ہائی کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن (ایل سی آئی اے) نے اسلام آباد کو ہدایت کی کہ وہ انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پی ز)کو گیارہ ارب روپے ادا کرے ، اس سلسلے میں پاکستان کے خلاف حتمی جزوی ایوارڈ جاری کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت عالمی ثالثی کے اداروں میں پبلک اینڈ پرائیوٹ انٹرنیشنل قوانین میں بہت زیادہ الجھا ہوا ہے، جہاں 2013 سے اب تک متعدد قانونی فرموں اور وکلا کو تین اعشاریہ ایک ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔ اس نمائندے کو عالمی ثالثی سے وابستہ سینئر حکام کے ساتھ اپنی پس پردہ ملاقاتوں میں معلوم ہوا کہ پاکستان تقریبا ایک درجن قانونی فرموںاور وکلا کو مقدمات لڑنے کےلئے کروڑوں ڈالر ادا کر رہا ہے۔ ان مقدمات میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو، کارکے رینٹل، ریکوڈک مائنگ، کشن گنگا ہائیڈروپاور، پروگیس ایل پی جی، حب کو پاور، سفائر الیکٹرک، ہالمور انرجی اور دیگر شامل ہیں لیکن اس کے باوجود اب تک جس قانونی ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ، اس نے کسی ایک معاملے میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔

ایک اور ٹریبونل 9 آئی پی پیز کی جانب سے ہرجانے کے دعوے کی سماعت شروع کرنے والا ہے، جس کی سماعت آئندہ ماہ ہوگی۔ کابینہ کے ایک رکن نے دی نیوز کو بتایا کہ دعوے کی رقم کئی گنا اوپر جا سکتی ہے۔ دی انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ نے پاکستان کے خلاف ہرجانے کے دعوے میں ’’کارکے‘‘کے حق میں 700 ملین ڈالر کا ایوارڈ جاری کیا ہے۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے ’’کارکے‘‘ سے معاہدے کے خلاف موجودہ وزیرخارجہ خواجہ آصف سپریم کورٹ گئے۔پاکستان کو ایک اور شرمندگی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی پھانسی کو روک دیا۔ جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا کہناہے کہ پاکستان نے کلبھوشن کے معاملے میں غلطی کی، پاکستان نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری ہے، وہاں جانا پاکستان کی غلطی تھی۔ انہیں عدالتی کارروائی میں شرکت ہی نہیں کرنا چاہیے تھی۔

اسی طرح پاکستان اور بھارت انڈس واٹر ٹریٹی پر گزشتہ ہفتے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔دونوں پڑوسیوں میں اس مسئلے پر واشنگٹن میں بات چیت ہوئی جہاں اسلام آباد کو ریٹل اور کشن گنگا ہائیڈروالیکٹرک پاور پروجیکٹ کے ڈیزائن پر اپنے اعتراض کے متعلق ثالثی کرنے والوں بظاہر قائل نہ کر سکا۔ کابینہ کے ایک رکن نے جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کہا کہ ہمیں غیرملکی سرمایہ کاروں سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے، عالمی فورمز پر حالیہ شرمندگیاں ہمارے لئے پریشان کن ہیں۔ انہوں نے اس نمائندے کو بتایا کہ انٹرنیشنل فورم نے ’’کارکے‘‘کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم کو نظرانداز کردیا، لہٰذا اعلی عدالتوں کو بھی تجارتی معاملات خاص طور پر ہمارے بین الاقوامی وعدوں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ناکامی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ معاملے کو حل کرنے کے لئے مختلف محکموں کی جانب سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں ہچکچاہٹ اس نتیجے کی ذمہ دار ہے، حکومت عام طور پر اچھی قانونی ٹیم کو لیتی ہے لیکن بہترین قانونی ٹیم بھی اپنے موکلوں کی خامیوں کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔

وزیر پانی و بجلی اور قانون و انصاف نے اس پیش رفت پر یہ کہہ کر اپنی رائے نہیں دی کہ ’’عالمی ثالثی سے متعلق اطلاعات حقائق کے اعتبار سے غلط نہیں ہیں‘‘۔ہم اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں اور اس کے مطابق جواب دے رہے ہیں۔ وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے اس نمائندے کی جانب سے کئی کوششوں کے باوجود اپنی رائے نہیں دی۔

وزارت قانون و انصاف سے وابستہ ایک اور سینئر اہلکار نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے میڈی ایشن ایکٹ کے حوالے سے اپنے منظور کردہ نئے قانون کو بھی استعمال نہیں کیا، جو اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ریٹائرڈ ججوں کے پینل کے قیام سے ایک راستہ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز، کارکے اور دیگر متعدد معاملات میں بین الاقوامی سرمایہ کار بار بار درخواست کرتے رہے کہ ایسی شرائط پر معاملات طے کر لیے جائیں کہ جن میں کسی کی شکست نہ ہو لیکن سرکاری ملازمین کی قانونی ذمہ داری سے برات قومی خزانے کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اس سینئر اہلکار کا،جسے میڈیا سے بات کرنے کا اختیار نہیں ہے ، خیال تھا کہ سول سرونٹس کو یہ تشویش ہوتی ہے کہ اگر انہوں نے کم رقم پر معاملہ طے کر لیا تو بعد میں نیب جیسے ادارے ان کے پیچھے آئیں گے، اس لئے وہ ہچکچاتے ہیں اور ثالثی کے بدترین نتائج نکلتے ہیں۔ سابق عبوری وزیر قانون احمر بلال صوفی کا خیال تھا کہ عالمی مقدمات جب دائر ہوجائیں تو انہیں بھرپور طریقے سے لڑنے کی ضرورت ہے لیکن اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی قوانین پر اتھارٹی احمر بلال صوفی نے اس نمائندے کو بتایا کہ ان کا مشاہدہ ہے کہ عالمی سرمایہ کار دعوے دائر کرنے سے قبل حکومت میں سے کسی سے بات کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن حکام مذاکرات کرتے ہوئے اور معاملہ کو حل کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور اس کی وجہ ان کے خلاف نیب کی انکوائری کا خوف ہوتا ہے۔

تازہ ترین