• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور درآمدی و برآمدی بلوں میں بڑھتا ہوا تفاوت کم کرنے کے لیے 731 اشیائے تعیش اور کھانے پینے کی چیزوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں50فیصد تک اضافہ کردیا ہے ۔ جن اشیاء پر ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے ان میں پھل، سبزیاں، دودھ، پنیر مکھن، بڑی گاڑیاں، کھیلوں اور میک اپ کا سامان، مچھلی، گوشت، موبائل سیٹ، زندہ مرغیاں، ڈیری مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔ درآمدات کا حجم بڑھ جانے اور برآمدات کم ہونے کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثر پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اسی ماہ درآمدی تجارت کو متوازن بنانے کے لیے اقدامات کی منظوری دی تھی۔ وفاق ایوانہائے صنعت وتجارت پاکستان کے صدر زبیر طفیل نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فہرست میں شامل زیادہ تر اشیاء مقامی طورپر تیار ہوتی ہیں۔ اس لیے صارفین کو ان کی فراہمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ایوان صنعت و تجارت کراچی نےشکایت کی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ درآمد کنندگان نے اس سلسلے میں احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے دوسری بار درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل موجودہ مالی سال کے بجٹ میں565اشیاء پر ڈیوٹی بڑھائی گئی تھی۔ موجودہ اضافے سے 25ارب روپے کا اضافی ریونیو متوقع ہے جو حکومت کے ذمے برآمدکنندگان کے واجبات کی ادائیگی کے کام آئیں گے۔ ماہرین کے مطابق ڈیوٹی بڑھانے کا مقصد ان اشیاء کی درآمد کم کرنا ہے۔ اس سے ڈالر کی طلب کم روپے کی قدر مستحکم ہو گی اور بجٹ خسارہ کم ہو گا۔ تاہم خدشہ ہے کہ یہ اشیاء افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں افغانستان کے راستے پاکستان میں تیزی سے سمگل ہونے لگیں گے۔ حکومتی اداروں کو اس سلسلے میں چوکس رہنا پڑے گا۔ حکومت کو اب برآمدات میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہیں۔

تازہ ترین