• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق امریکی صدر کارٹر کی شمالی کوریا جانے کی پیش کش

واشنگٹن (جنگ نیوز) امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر نے کہا ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے شمالی کوریا جانے پر تیار ہیں۔یہ بات سابق صدر نےنیویارک ٹائمز سے ایک انٹرویو میں کہی۔اتوار کوشائع ہونے والے انٹرویو کے مطابق جب 93 سالہ کارٹر سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ (شمالی کوریا کے ساتھ) ایک اور سفارتی کوشش کا وقت نہیں ہے اور کیا وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے ایسا کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا "جی ہاں، میں (شمالی کوریا) جانے کے لیے تیار ہوں "۔کارٹر جن کا تعلق ڈیموکریٹک جماعت سے ہے 1977ء سے 1981ء تک امریکا کے صدر رہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ کے سلامتی کے مشیر لفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر جو ان کے دوست بھی ہیں، سے انہوں بات کی ہے لیکن اب تک انہیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔نیویارک ٹائمز نے کارٹر کے حوالے سے بتایا کہ "میں نے انہیں (ٹرمپ انتظامیہ) بتایا کہ جب انہیں ضرورت ہو گی میں حاضر ہوں۔"جب ان کو یہ بتایا گیا کہ واشنگٹن میں بعض حلقوں کو ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کے درمیان لفظی جنگ پر تشویش ہے تو کارٹر نے کہا "میرے لیے بھی یہ صورت حال پریشان کن ہے۔"کارٹر نے کہا کہ "وہ اپنے اقتدار کو بچانا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا بالخصوص کم جونگ اُن پر چین کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے "۔انہوں نے مزید کہا کہ "میں نہیں سمجھتا کہ وہ (کم) کبھی چین گئے ہیں، ان کے ساتھ ان کے کوئی تعلقات نہیں ہیں۔ کم جونگ اُن چین گئے تھے اور وہ ان (چین) کے بہت قریب تھے۔"کارٹر نے انٹرویو میں شمالی کوریا کے رہنما کو ایسا شخص قرار دیا جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے اور کارٹر کو اس بات پر تشویش ہے کہ اگر کم نے یہ سوچ لیا کہ ٹرمپ ان کے خلاف کوئی اقدام کر سکتے ہیں تو وہ اس کی پیش بندی میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔کارٹر نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ اب ان کے پاس جدید جوہری ہتھیار ہیں جو جزیرہ نما کوریا اور جاپان اور بحرالکاہل میں ہمارے دورافتادہ علاقوں حتٰی کہ ہماری سر زمین کو تباہ کر سکتے ہیں۔"نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کارٹر نے 1990ء کی دہائی میں صدر بل کلنٹن کے اعتراض کے باوجود پیانگ یانگ کا دورہ کیا اور جس کے بعد موجودہ رہنما کے دادا کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پا گیا جس کی وجہ سے جوہری بحران کا خطرہ ٹل گیا۔ اسی کی وجہ سے 1994ء میں ایک متفقہ فریم ورک بھی طے پایا جس کے تحت شمالی کوریا نے امداد کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
تازہ ترین