• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے، سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائیں

ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک عالم و فاضل مولانا کو گفتگو کرتے پایا جو نہایت عقیدت اور جذباتی انداز سے گفتگو فرما رہے تھے۔ موضوع تھا حضرت مجدد الف ثانیؒ۔ چونکہ یہ موضوع میرے قلب و ذہن کے حد درجہ قریب ہے اور مجھے حضرت مجدد الف ثانیؒ سے گہری عقیدت ہے اس لئے میں ہمہ تن گوش سننے لگا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے علم و فضل، عبادات و مجاہدات کے علاوہ ان سے قلبی عقیدت کی وجہ ان کی روحانیت یا روحانی مقام بھی ہے۔ حضرت تصوف کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ میں تو خیر کس کھیت کی مولی ہوں۔ میرے فکری مرشد علامہ اقبالؒ کو بھی حضرت مجدد الف ثانیؒ سے اتنی گہری عقیدت تھی کہ وہ لاہور سے خاص طور پر سفر کرکے سرہند شریف حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پر گئے، وہاں گھنٹوں بیٹھے تلاوت قرآن مجید کرتے رہے اور یہ منت مان کر آئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد نرینہ عطا کی تو وہ بیٹے کو ساتھ لا کر حاضری دیں گے۔ پیر کامل ہو اور مرید مخلص، سرتاپااخلاص ہو تو اللہ سبحانہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتے ہیں اور حاجات پوری فرماتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مصدقہ تصنیف زندہ رُود، جسے میں علامہ اقبالؒ پر بہترین کتابوں میں شمار کرتا ہوں اس حقیقت کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ جب جاوید چند برسوں کے ہوئے تو علامہ اقبالؒ منت پوری کرنے انہیں ساتھ لے کرحضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پر حاضر ہوئے، کئی گھنٹے تلاوت کرتے اور روتے رہے کہ قلب میں روشنی ہو تو وہ رقیق اور نرم ہو جاتا ہے اور تلاوت کرتے ہوئے یا کسی روحانی شخصیت کے قدموں میں بیٹھے ہوئے آنکھوں سے آنسوئوں کے فوارے اچھل پڑتے ہیں۔ یہ تو آپ کو علم ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مغل بادشاہ جہانگیرکو تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا فرمان تھا سجدہ صرف مالک حقیقی، اللہ سبحانہ تعالیٰ کو واجب اور جائز ہے۔ جہانگیر بادشاہ انہیں سزا کے طورپر ہاتھی کے پائوں تلے روند دینا چاہتا تھا لیکن عوام کے غیض و غضب کے خوف سے انہیں سزا دے کر گوالیار کے قلعے میں بند کردیا۔ گوالیار کے قلعے میں خطرناک قیدی، قاتل، قزاق اور اول درجے کے مجرم رکھے جاتے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی وہاں موجودگی کو اللہ پاک نے اسلام کی اشاعت اور دلوں کے بدلنے کا ذریعہ بنادیا۔ قلعے میں بند غیر مسلمان مجرمان اسلام قبول کرنے لگے اور مسلمان قیدی حضرت مجددؒ کی تعلیمات، کردار، شخصیت اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر توبہ کرنے لگے۔ پھر وہ مقام آیا کہ جہانگیر کو حضرت مجدد الف ثانیؒ سے معافی مانگ کر ان کی شرائط پر رہائی دینی پڑی۔ موٹی موٹی شرائط کیا تھیں ۔ 1۔ سجدہ تعظیمی ختم۔2۔ گائے ذبح کی اجازت۔3۔ شراب خانے،قحبہ خانے بند۔4۔ مسجدیں کھول دی جائیں، اذان کی مکمل آزادی(جو ہندوئوں کی خوشنودی کے لئے بند کردی گئی تھی) ۔5۔ جزیہ بحال۔6۔ بدعات ترک، شریعت کی ترویج اور قاضی، مفتی مقرر۔
طوالت کو اختصار کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے عرض کرنا مقصود ہے کہ ہم اکثر اوقات عظیم شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے عقیدت کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں اور ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کا نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے اور نہ ہی شواہد۔جذبات ابھارتے ہوئے توازن کھو دینا ہمارا قومی رویہ یا عادت ہے اور میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھنے سے پہلے تحقیق کرلی جائے اور حقیقت کا سراغ لگا لیا جائے تاکہ مبالغے یا جھوٹ کا ارتکاب نہ ہولیکن اس کے باوجود لڑکھڑا جانا انسانی کمزوری ہے۔ غیر مصدقہ بات پھیلتی چلی جاتی ہے اور کبھی کبھی غلط یا گمراہ کن تاثر کا باعث بنتی ہے اس لئے کچھ لکھنے یا کہنے سے قبل تحقیق یا تصدیق لازم ٹھہرتی ہے۔ مثلاًحضرت مجدد الف ثانیؒ کے حوالے سے ٹی وی پر متمکن مولانا صاحب نے فرمایا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے رہائی تک گوالیار قلعے میں قید تمام قیدیوں کو ولی اللہ بنا دیا۔ اگر تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں صراط مستقیم پر لگا دیا تو بات قابل فہم ہے لیکن اگر ولی اللہ روحانی معنوں میں ہے تو عرض ہے کہ سودا اتنا سستا نہیں ہوتا کہ اسے ریوڑیوں کی مانند بانٹا جائے۔ یہ تقسیم یا عطا یا دین اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور مخصوص روحوں کے لئےمخصوص ہوتی ہے۔ اسی طرح مولانا صاحب نے فرمایاکہ جب علامہ اقبالؒ مزارسے نکلےتو محسوس کیا کہ وہ روحانیت سے سرشار ہو چکے ہیں۔ میری تحقیق اور مطالعے کے مطابق مجھے ان دونوں واقعات یا بیانات کی کوئی تحریری سند نہیں ملی۔
اسی طرح کی ایک غلطی (بلنڈر) یا حماقت مجھ سے بھی ہوئی جس کے لئے میں خلوص نیت سے معذرت خواہ ہوں۔ میں حتیٰ الوسع بلاتحقیق نہیں لکھتالیکن بعض اوقات کسی مصنف یا کتاب پر اعتبار کرلیا جاتا ہے۔ مجھے علامہ اقبالؒ کی سوانح عمریاں پڑھنے کا شوق ہے۔ کئی دہائیاں قبل علامہ کی ایک سوانح پڑھتے ہوئے یہ واقعہ میری نظر سے گزرا اور ذہن میں محفوظ ہو کر رہ گیا۔ مصنف مرحوم ہو چکے ہیں اس لئے نام ظاہرنہ کرنا ہی مناسب یا مصلحت ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ علامہ کی ولادت سے قبل علامہ اقبالؒ کے والد نے بینک کی نوکری کر لی اور علامہؒ کی والدہ نے اس خیال سے بکری خرید لی کہ وہ نومولود کو اپنا دودھ نہیںپلائیں گی کیونکہ بینک میں سودی کاروبار ہوتا ہے جس سے علامہؒ کے والد کو تنخواہ ملتی ہے۔ چنانچہ بقول مصنف جب تک علامہؒ کے والد بینک میں ملازم رہے، ان کی والدہ علامہ اقبالؒ کو بکری کا دودھ پلاتی رہیں۔میں نے جب اس واقعہ کے حوالے سے تحقیق کی ،خانوادہ اقبالؒ سے پوچھا، ماہرین اقبالؒ سے کریدا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اس واقعے کی کوئی سند موجود نہیں اور خانوادہ اقبالؒ بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔مجھے افسوس ہوا کہ میں نے بلاتصدیق ایسی بات کیوں لکھ دی اور کسی مصنف پر اندھا اعتماد کیوں کرلیا ہے ۔ بہرحال میں اس کالم کے ذریعے اس کی وضاحت بھی کر رہا ہوں اور معذرت بھی۔
لطف کی بات ہے کہ تحقیق یا تصدیق کے حمام میں ہمارے اکثر نامور دانشور، شہرت یافتہ لکھاری ننگے ہیں کیونکہ تحقیق جان جوکھوں کا کام ہے اور سنی سنائی بے پر کی اڑانا ہمارا قومی وطیرہ ہے۔ گزشتہ دنوں بزعم خود بہت بڑے دانشور پروفیسر پرویز ہود بھائی کا کالم ایک انگریزی اخبار میں پڑھتے ہوئےمیں حیرت میں گم ہوگیا۔ سائنس دان ہود بھائی نے داعش کے ڈانڈے فکر اقبالؒ سے ملاتے ہوئے علامہ اقبالؒ کی انگریزی کتاب سے ایک اقتباس پیش کیا تھا۔ حیرت مجھے اس لئے ہوئی کہ میں نے علامہؒ کی کتاب ری کنسٹرکشن کئی بار پڑھی ہے لیکن یہ اقتباس اجنبی سا لگا۔ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہود بھائی کا پیش کردہ اقتباس اقبالؒ کا نہیں تھا بلکہ یہ ہود بھائی کی آمد تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چند دنوں پر برادرم فتح محمد ملک نے اپنے کالم میں یہ تصدیق کر دی کہ ہود بھائی نے غلط بیانی کی تھی۔وہ الفاظ علامہ اقبالؒ کے نہیں تھے۔ میں اس دیدہ دلیری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ کئی برس تک آنجہانی کائوس جی ایک انگریزی اخبار میں اور پروفیسر ہود بھائی اپنی تحریروں میں مسلسل قائد اعظمؒ کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرکے انہیں سیکولر ثابت کرتے رہے۔ پھر انگلستان کی ایک ریسرچ سکالر سلینہ نے اپنی کتاب سیکولر جناح (انگریزی) میں ان عالم و فاضل حضرات کی تحقیق کا بھانڈا پھوڑا اور ثابت کیا کہ ان حضرات کے بار بار لکھے الفاظ قائد اعظمؒ کے نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی انگریزی بھی غلط ہے۔
کائوس جی، پرویز ہود بھائی اور پروفیسر منیر نے قائد اعظمؒ پر ’’سیکولر‘‘ کا بہتان لگانے کے لئے ان کی مسخ اور تحریف کردہ تقریر کے الفاظ تحقیق کی زحمت اٹھائے بغیر جسٹس منیر کی کتاب (جناح ٹو ضیاء) سے لئے تھے۔جسٹس منیر نے اپنے مقصد کی خاطر قائداعظمؒ کے الفاظ تبدیل کردیئے تھے جن کی انگریزی بھی غلط تھی اور ہمارے نامور دانشور آنکھیں بند کرکے انہیں مسلسل کئی سال استعمال کرتے رہے۔ تحقیق کے بغیر دانشوری دکانداری بن جاتی ہے۔ یہ وہی جسٹس منیر ہیں جن کا آج کل بڑا ذکر ہو رہا ہے اور جو اپنا مقدمہ لے کر خالق حقیقی کی عدالت میں جا چکے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں سچ بولنے اور سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اس کی عطا کے بغیر یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی۔

تازہ ترین