• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جو سب کو صلاح مشورہ دیتے رہتے ہیں، سب کو سدھارنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، سب سے زیادہ انہیں درست راہ اپنانے کی ضرورت ہے، ذرائع ابلاغ کو۔ یہ توقع کہ سب ٹھیک ہوجائیں گے، کئے جاسکیں گے، شاید بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔ باقی کا حال عوام پر چھوڑا جائے، جو انہیں مسترد کرنے کا حق اور اختیار رکھتے ہیں؛ خواہش بھی۔ ایک موقع انہیں بھی ملنا چاہئے۔
یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں۔ زمینی حقائق ہیں۔ انہیں مسترد بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذرا قریب کے حالات کا جائزہ لیا جائے، کوئی دیکھے، پرکھے، کیا ہوتا رہا؟ کیا ایسے ہی ہونا چاہئے تھا؟ کیا اسی طرح ہوتا ہے؟ کیا ذرائع ابلاغ کا یہی کام ہے؟ یا اس سے بہتر ڈھنگ اختیار کرنا چاہئے؟ یہ جو حالیہ واقعات ہوئے،صحافتی تقاضے کیا ہیں؟ بات اسلام آباد سے شروع ہوئی ، وہ بھی کافی تاخیر سے۔ بتایا گیا کچھ لوگ فیض آباد کے چوک پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔اس سے پہلے اور اس کے سوا کہیں کوئی خبر نہیں تھی۔ کم ہی لوگوں کو پتہ ہوگا۔ پھر کچھ تذکرہ ہوا۔ یہ چھ سات دن بعد کی بات ہے۔ نشاندہی کا ایک معقول پہلو تھا، عوام کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ نہیں روکا جانا چاہئے تھا۔ مگربات اسی کے گرد گھومتی رہی۔ مگر یہ سب تھا کیا؟ کیوں لوگوں کا راستہ روکا جارہاتھا؟ کم بات اس پر ہوئی، بہت ہی کم۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ کچھ اور تفصیل درکار تھی۔ ذرائع ابلاغ تصویر کے دونوں پہلو پیش کرنے کے پابند ہیں۔ ان کی اخلاقی، پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ مگر ایک ہی پہلو سامنے لایا جاتا رہا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر لوگ اس سردی میں کیوں سڑک پر بیٹھے ہیں؟ یہ بتانا تو چاہئے تھا۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ بعد میں ساری توجہ اس کی وجوہات پر ہی مرکوز ہوئی۔ پہلے بھی تو ہو سکتی تھی؟ اس وقت اصل بات سامنے کیوں نہیں لائی گئی؟ کوئی صحافتی تقاضا مانع تھا؟ کوئی صحافتی اخلاق رکاوٹ تھا؟ بظاہر تو ایسی کوئی وجہ سامنے آئی نہ بتائی گئی۔
بات تو بہت بعد میں کھلی۔ مسئلہ ختم نبوت پر حلف کا تھا۔ انتخابی قانون میں ایک تبدیلی خاموشی سے کردی گئی۔ تین اہم نکات حلف کے فارم سے نکال دئیے گئے تھے۔پارلیمان کے ارکان کی اکثریت کو تو پتہ ہی نہیں چلا۔ چند ایک نےاعتراض کیا مگر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ دھرنا دینے والوں کا مطالبہ تھا کہ حلف نامہ درست کیا جائے۔ کسی نے کیا سننی تھی۔ جب یہ بھی نہیں بتایا جا رہا تھاکہ دھرنا کیوں دیا جارہا ہے؟ سڑک بند ہی کیوں کی جارہی ہے؟ عوام کو کیوں مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے؟ یہ سب تو بتایا ہی نہیں جارہا تھا، تو یہ کیسے پتہ چلتا کہ ان لوگوں کا کوئی مطالبہ بھی ہے؟ اور کوئی اس مطالبے کو سنے گا۔
تو کیاا سی طرح ہوتا ہے؟ کیا اسی طرح ہوتا رہا ہے؟ جب بھی کسی نے دھرنا دیا، احتجاج کیا، مظاہرہ کیا، اس کی وجوہات سامنے لائی گئیں۔ بلکہ اصل بات پہلے بتائی گئی۔ پریس کلبوں کے سامنے آئے دن لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ سڑک بند ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو کئی دن تک۔ ان کی خبر نشر ہوتی ہے۔ ان کا مطالبہ بھی سامنے لایاجاتا ہے۔ اس بار ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا؟ اور یہ بھی اس صورت میں جب کہ مطالبہ کا تعلق مسلمانوں کے دین اور ایمان سے تھا۔ مطالبہ یہی تو تھا کہ حلف نامہ درست کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ ذمہ داروں کا تعین ہو اور انہیں سزا دی جائے، یا اگر وزیر ہے تو اس سے استعفیٰ لیا جائے۔ اس میں ایسی کونسی انوکھی بات تھی، یا قابل اعتراض کہ جس کے تذکرہ میں تاخیر کی جاتی رہی؟ اور بات جب بہت بڑھ گئی تو مطالبہ سامنے لایا گیا۔ اس وقت موضوع یہ نہیں کہ اس کے بعد حکومت نے کیا کیا؟ وزیر کسی بھی تبدیلی سے کاغذ لہرالہرا کر انکار کرتے رہے، کارروائی میں کیا کوتاہی ہوئی؟ اس پر بہت بات ہو چکی ہے اور مزید ہو تی بھی رہے گی، ہو بھی سکتی ہے۔
اس پر بات کریں کہ ذرائع ابلاغ کا رویہ کیا تھا؟ پہلے ذرا واپس اسلام آباد چلتے ہیں۔ دھرنے میں کتنے لوگ شریک ہوئے؟ اس سوال کا جواب کبھی درست نہیں مل سکتا، کبھی نہیں ملا۔ مگر اس کی اہمیت کو بھی فی الحال اٹھاکر ایک طرف رکھتے ہیں۔ ان کی بات مان لیں، چند سو یا چند ہزار لوگ تھے۔ اور چند ایک ان کے رہنما۔ کہا جاتا ہے ان کے رہنمائوں کی زبان درست نہیں تھی۔ یا اگر ذرائع ابلاغ کی بات مان لیں تو مقررین نے بہت غلیظ زبان استعمال کی، گالیاں دیں۔برا کیا۔ اس میں تنقید کا ایک پہلو تو ذرائع ابلاغ اور مخالفین کے ہاتھ آہی گیا۔ اور شاید درست بات بھی ہے۔ مطالبہ کے تقدس سے ان کی زبان مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ انہیں یہ سب نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا اس میںمعقولیت تلاش کرنا عبث ہوگا۔ ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ ان کے سامنے دو ڈھائی ہزار افراد تھے جو یہ گفتگو سن رہے تھے۔ ممکن ہے ان کی عقیدت ان باتوں کو برداشت کر پا رہی ہو۔جو کچھ کیا جارہا تھا، ایک محدود مقام پر ، تھوڑے سے لوگوں کے سامنے تھا۔ مگر بعد میں اس محدود جگہ پر کی جانے والی گفتگو، کھلے عام مختلف چینلز پر باربار نشر کی گئی۔ جو بات ذرا دیر پہلے چند لوگ سن رہے تھے، اب ہر گھر میں سنائی جارہی تھی، آخر سب ہی اس ہنگامہ کے ناظر تھے۔ تو بات یہاں آئی کہ کیا ایک جگہ ہونے والی بری بات کو بلا روک ٹوک پورے ملک میں، ہر گھر میں پھیلا دیا جائے؟ کیا یہی معقولیت ہے؟ کیا ذرائع ابلاغ کا یہی کام ہے؟ ابھی کل تک تو آپ یہ بھی نہیں بتا رہے تھے کہ دھرناکیوں دیاگیا ہے، اور اب آپ یہ بھی کھول کھول بیان کررہے ہیں کہ وہاں کے مذہبی رہنما خراب زبان استعمال کررہے ہیں۔ کیا ان چینلز والوں میں سے کسی نے وہ زبان خود سنی؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یا انہوں نے نام نہاد سوشل میڈیا سے اٹھا کر اپنے چینل کی زینت بنایا، سارے ملک میں پھیلایا، مزے لئے، اور سب کو یہ باور کرانے کی پوری سعی کی کہ یہ ٹھیک لوگ نہیں ، بات ختم نبوت کی کرتے ہیں، عملًااس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مقصد بھی شاید یہی تھا۔ یہ باور کرایا جائے کہ بھلا اتنی سخت زبان استعمال کرنے والوں کا مطالبہ درست کیسے ہو سکتا ہے؟ اور انہوں نے جو مطالبہ منوا لیا ہے، کیا اس کی تائید کی جا سکتی ہے؟ راجہ ظفرالحق تحقیقاتی کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے کہ جن لوگوں نے خاموشی سے حلف میں تبدیلی کی تھی ان کے مقاصد میں یہ بات بھی شامل تھی کہ منظور شدہ مطالبہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں، ان کے منوانے والوں کے رویہ کی مذمت کرکے ہی سہی۔ مقصد واضح ہے، مذہبی گروپوں کی تذلیل، جس حد تک اور جس طریقہ سے ممکن ہو کی جائے۔ یہ تو سامنے کی بات ہے۔
یہ کیوں کیا گیا، اس کے پیچھے کیا کچھ تھا؟ اس کی بھی کچھ تحقیقات ہونی چاہئے۔ جس طرح اس دھرنے کے قائدین کا مذاق اڑایا گیا، پہلے کسی دھرنے کے شرکا اور رہنما ئوں کا نہیں اڑایا گیا۔ اسی اسلام آباد میں چند برس پہلے دھرنا دیا گیا، اور وہاں کیا کچھ نہیں ہوا؟ اس کی تو کبھی تشہیر نہیں کی گئی۔ اور اس طرح تو بالکل نہیں کی گئی۔ جیسے اس بار کی گئی، اور کی جاتی رہی۔
تو کیا اسی طرح ہونا چاہئے؟ جی نہیں کوئی ضابطہ ہوگا۔ نہیں ہے تو بنائیں۔ اور کوئی ادارہ ہو جو رہنمائی کرے۔ پیمرا نے مایوس کیا۔ اس کے بس کا کام نہیں۔اس کے اہلکاروں نے جس بصیرت کا ثبوت دیا وہ سب کے سامنے ہے۔ چینلز کی نشریات بند کرناکسی بھی مسئلہ کا حل نہیں۔ رہنمائی بھی اس کے بس کا کام نہیں۔ یہ ایک بہت سنجیدہ اور ذمہ داری کا کام ہے کہ ہنگامی حالات میں ذرائع ابلاغ کو درست سمت بتائی جا سکے۔ اس کام کے لئے کچھ غیر جانبدار لوگ ہوں، جن پر سب کا اعتماد ہو، اور جن کی سب سنیں۔ جو کچھ ہوا، اور جس طرح ذرائع ابلاغ نے اسے برتا یہ پھر ہو سکتا ہے، کبھی بھی۔ آج اس پر غور کریں، کوئی حل تلاش کریں، قابل عمل۔تاکہ کل پھر اس طرح کی غلطیاں دہرائی نہ جائیں۔ سخت زبان جتنی محدود رہے اُتنا ہی بہتر ہے۔

تازہ ترین