• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کے معاشی و دفاعی بلکہ سماجی طور پر کامیاب ترین ممالک کی کامرانیوں کی جڑیں تلاش کریں تو وہ ہمیں جدید تعلیم میں ملیں گی۔ مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن ان کا حاصل یہ ہے کہ جدید تعلیم کے بغیر کسی بھی نوع کی ترقی کا تصورمحال ہے ۔بابا ئے قوم محمد علی جناح کی ترجیحات میں اولیت تعلیم کو حاصل تھی جبکہ معاشی انقلاب اور دفاع کی مضبوطی اس کے بعد ۔ قائد کو احساس تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو قومیں تعلیم کو اولیت دیتی ہیں وہ بالآخر معاشی ترقی کی طرف گامزن ہو کر اپنے دفاع کو بھی ناقابل تسخیر بنا دیاکرتی ہیں ۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ تعلیم کا حصول ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے دینی حکم کو دینی تعلیم تک محدود کر لیا اس مفہوم حدیث پر توجہ ہی نہ دی کہ تعلیم حاصل کروخواہ اس کے لئے چین جانا پڑے ۔اس دور میں چین میں دینی تعلیم تو ہرگز نہ تھی خیر ایسا بھی نہیں کہ مسلمانوں نے دیگر علوم حاصل نہ کیے ضرورکئے بلکہ اس طرح کہ ان پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ’’ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘اور یہ تعلیم مدارس میں ہی حاصل کی ۔ طب، فلکیات، فلسفہ، ریاضی سمیت مسلمانوں نے بیشتر کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ان کے یہ کام چراغ بن کر یوں روشن ہوئے کہ ان کی ضیا پاشیاں ہمیں یورپ تک میں دکھائی دیں ۔ المیہ یہ ہوا کہ یہ مدارس بعد ازاں مختلف مکاتب فکر کا لبادہ اوڑھتے چلے گئے ، جدید تعلیم کا عنصر عنقا ہو گیا اور سینکڑوں برس قبل تحریر کردہ کتب پڑھنا ہی لازم ٹھہرا۔ آج بھی ہمارے مدارس میں نصابی اعتبار سے کوئی مثالی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ۔ مسلمانوں میں تفریق بڑھانے کا کام تو اگرچہ تاج برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام میں شروع ہو گیا تھا اور سرکاری سرپرستی میں لیکن وطن عزیز میں یہ ’’کارنامہ‘‘ جنرل ضیا کے دور میں انجام پایا۔ افغان جنگ پر برگ و بار آیا تو گویا’’ گلستان کھل گیا‘‘۔مذہبی جماعتوں پر ہن برسا۔ دینی مدرسوں کی تعداد برق رفتاری سے بڑھییہ نہیں دیکھا گیا کہ ان مدرسوں میں کیا پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا اور کیا پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے ، کراچی میں مدارس سیل کرنے کی وجہ کیا تھی؟بہر کیف اصلاح احوال کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے لیکن اس کے لئے درست تشخیص لازم ہے ورنہ معاملہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا ہو جاتا ہے ۔ پاکستان کے آرمی چیف ایک صاحب فراست شخصیت ہیں، حالات کا ادراک ہی نہیں رکھتے ان کی صلاح کے رد عمل سے بھی شناسائی رکھتے ہیں ۔ کوئٹہ میں بلوچستان کے نوجوانوں میں افرادی قوت کی بہتری کے مراسلے سے انٹرنیشنل سیمینار ان کا خطاب، ایک ایسا جامع خطاب ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی بنیاد ڈال سکتے ہیں ۔ بقول آرمی چیف حکومت کرنا بلاشبہ فوج کا کام نہیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ فوج اور سیاستدانوں سے غلطیاں سرزد ہو ئیں ۔ دراصل غلطی تسلیم کرلینا ہی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے اور سب کو اپنی غلطیاں تسلیم کر کے اصلاح کی طرف قدم بڑھانا ہو گا ۔ یاد رہے کہ غلطی مان لینے سے عزت میں کمی نہیں آتی وقار بلند ہوتا ہے اس بات کا کسی کے پاس کیا جواب ہے کہ زیادہ ترمدارس اپنے فرائض بھول چکے ہیں اور مدرسے سے فراغت کے بعد کیا بنیں گے۔ مولوی بنیں گے یا دہشت گرد ؟ہمیں من حیث القوم کے حوالے سے بہتری کے اقدامات کرنا ہونگے ورنہ اس معاشرے میں جہاں تحمل و برداشت بتدریج ختم ہو تی چلی جا رہی ہے تشدد اپنی بدترین صورت میں سامنے آنے کا اندیشہ رد نہیں کیا جا سکتا ہمیں ’’اقرا‘‘ کی طرف آنا ہو گا جو محض دینی ہی نہیں دنیا بھر کے عوام کا احاطہ کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں صورت حال یہ رہی کہ سکولوں سے کہیں زیادہ مدارس بنے جن پر نظر ثانی از حد ضروری ہے کہ ان میں طلبا کی دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت کا کوئی انصرام نہیں ہمیں ملک بھر کے نوجوانوں کو صحیح سمیت میں نہج پر لانا ہو گا کہ اس میں قومی ترقی مضمر ہے ۔ آرمی چیف کا خطاب پاکستان کے بیشتر مگر بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ان کا حل بھی عیاں کرتا ہے ۔ حکومت اداروں اور قدم کو اس پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ مزید تاخیر سوائے مصائب کے کچھ نہ لائے گی۔ یاد رہے کہ ناسور جڑ پکڑ لے تو نشتر زنی لازم ٹھہرتی ہے۔

تازہ ترین