• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے ن لیگی رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کے دست راست جہانگیر ترین کے خلاف رٹ پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے قومی سیاست میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے ہوئے عمران کو آئینی آرٹیکل 23 ایف کی روشنی میں صادق و امین قرار دیتے ہوئے حنیف عباسی کا یہ الزام بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ عمران خان منی لانڈرنگ اور انتخابی گوشواروں میں اپنے اثاثے چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاہم جہانگیر ترین کے خلاف اسی الزام کو درست تسلیم کرتے ہوئے انہیں الزام کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عوامی نمائندگی کیلئے تا حیات نااہل قرار دے دیا ہے۔
اسی پس منظر میں تیسری مرتبہ ملکی وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف پہلے ہی بیرون ملک اپنے اثاثے چھپانے کے الزام میں عمران خان، شیخ رشید اور جناب سراج الحق کی الگ الگ رٹ پٹیشن پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے پر تا حیات عوامی نمائندگی اور پارٹی سربراہی کیلئے نااہل ہوئے۔ تاہم پارٹی سربراہی کی حیثیت انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت اور سینٹ میں اپوزیشن کے مشکوک کردار یا ناقابل معافی نااہلیت کے باعث بذریعہ آئینی ترمیم بحال کرا لی۔ جس سے ہماری پارلیمان پرلے درجے کے غیر جمہوری ترمیمی بل کی توثیق کے باعث ملک میں ہی نہیں بین الاقوامی میڈیا میں بھی رسوا ہوئی۔
پارلیمان کے اس غیر جمہوری اور بدنام زمانہ کردار کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا متفقہ متذکرہ فیصلہ اور اس سے قبل پانامہ لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کا فیصلہ موجودہ جمہوریت مخالف پارلیمان کی کالی قانون سازی جس کی آڑ میں ختم نبوتؐ سے متعلق سکہ بند تاریخی قومی آئین سازی سے بھی چھیڑ چھاڑ کی جسارت کی گئی، کا مداوا ہی نہیں بلکہ یہ تینوں فیصلے دے کر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مملکت خداداد میں آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کی نئی تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ تاریخ سازی اس لحاظ سے بے پناہ اہم اور دوررس نتائج کی حامل ہو گی کہ یہ ’’آئین کے کامل اور قانون کے یکساں انصاف‘‘ کو بذریعہ عدالتی احتسابی عمل بنانے کے خلاف اسٹیٹس کو (نظام بد) کی پوری طاقت سے مزاحمت پر ضرب کاری ہے۔ آنے والے الیکشن 18ء (انشاء اللہ) سے قبل اس عظیم اور شدید قومی ضرورت کا پورا ہونا یقیناً پاکستان کیلئے بہت خیروبرکت کا باعث بنے گا۔ بلا شبہ اسٹیٹس کو کی عوام دشمن طاقت چونکہ ملک بھر کی انتظامیہ، پارلیمانی عمل اور قومی سیاست کے بڑے حصے کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ سے سیاسی استحکام اور قومی معیشت ہل کر رہ جائیں گی اور عوام کو نئی مشکلات سے دور چار ہونا پڑے گا لیکن آئین کی عملداری اور قانون کے یکساں اطلاق کی حقیقت اور اہمیت سب سے بڑھ کر حقیقی احتسابی عمل، اس سب کچھ منفی کو عارضی ثابت کر دے گا اور پاکستان کی مشکلات سے نجات کا تیز تر عمل آنے والے اس انتخابی عمل میں بننے والی حکومت کی چھتری میں شروع ہو جائے گا۔ جن کا شفاف، آزاد اور غیر جانبدار یعنی بمطابق آئین ہونا اب ناگزیر ہے۔ پاکستانی قوم اور آئین پاکستان کا اب فوری اور سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ روایتی سیاسی حربوں سے جکڑے مشکوک اور متنازعے الیکشن کے برعکس ہم انتخابات بمطابق آئین کرانے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔
متذکرہ اولین قومی ضرورت الیکشن بمطابق آئین میڈیا اسٹیٹس کو مخالف سیاسی قوتوں اور عدلیہ اور اس کی چھتری میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی نے اپنی اپنی آئینی ذمے داریوں اور مطلوب قومی کردار کی ادائیگی سے یہ ناگزیر قومی ضرورت پوری کرنی اور کرانی ہے۔ سر جوڑ لیا جائے۔ محنت اور فوکس ہو تو، جاری احتسابی عمل کے جاری و ساری رہتے ہوئے یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ جو اب رکتا نظر نہیں آتا۔ انشاء اللہ ! پاکستان انڈر ورلڈ کے مقامی پارٹنرز کی حکومت و سیاست کو غبرتناک انجام سے دو چار کرنے کے قریب ہے۔ اب راج کی کڑیاں ناجائز دولت اور سماجی پسماندگی کی منفی طاقت سے نہیں آئین و قانون و احتساب سے جڑ کر حقیقی عوامی طاقت اور ضروریات سے جڑیں گی۔ اسٹیٹس کو کیلئے یہ قیامت سے کم نہیں لیکن مطلوبہ تبدیلی کے علمبرداروں کیلئے بھی یہ بڑا چیلنج ہے جو ان کے عزم صمیم کے ساتھ حکمت اور محنت میں توازن کا طلب گار ہے، تاہم حالات سازگار ہیں کہ خاندانی حکومت و بے بہا اختیار کو بمطابق آئین خلق خدا کے راج میں تبدیل کر دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے متذکرہ تینوں فیصلوں نے پاکستان میں آئین کی مدد سے ایک وزیراعظم کو جو آئین کی روح کے برعکس خلاف آئین و قانون اسٹیٹس کو کے حربوں اور ملوکیتی سوچ سے بار بار اقتدار میں آیا، آئین کے مقررہ معیار سے متصادم قرار دیتے ہوئے اقتدار اور عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قرار دے دیا تو مقبول ہوتے سیاسی رہنما کو آئین و قانون کی روشنی میں دیانت داری کی عدالتی سند دے دی، کتنا عجب ہے کہ یہ صورت کیسے بنی۔
آج آئین پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ عوامی نمائندگی اور حکومتی قیادت کیلئے آئین کے آرٹیکل 23 ایف میں مقررہ معیار سیرت النبیؐ سے انسپائیریشن لیتے ہوئے شامل کیا گیا ہے۔ اس پر قومی اتفاق کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے آئین کا یہ امتیاز، آئین میں فوجی آمروں کی شامل کی گئی غیر جمہوری ترمیمات کو ختم کرنے کی تنسیخ کر کے اسے اس کی اصل شکل میں بحال کرتے ہوئے ’’صادق و امین‘‘ کے معیار والی اس آرٹیکل کو متفقہ طور پر برقرار رکھا گیا۔ اب یہ قرار داد مقاصد اور عقیدہ ختم نبوت ؐ کی حفاظت کی آئینی ضمانت کی طرح پاکستان کے متفقہ دستور کا اسلامی تشخص ہے۔ جو آئین کو اس کی روح کے مطابق اختیار کرنے پر لالچی، خود غرض اور بددیانت شہری کو اقتدار و اختیار کا رخ قانوناً نہیں کرنے دے گا۔ یہ کتنا عجب ہوا کہ قدرت نے ایک ن لیگی کی رٹ پٹیشن پر عمران خان کی بطور سیاسی قائد سب سے بڑی خوبی ’’دیانت دار قیادت‘‘ کی عدالتی سند فراہم کر دی۔ جس سے ان کی مقبولیت اور انتخابی سیاست میں گراف یکدم بہت بڑھنے کا واضح امکان پیدا ہو گیا ہے، جبکہ زیر بحث آرٹیکل کی ضد میں آ کر نااہل ہونے سے سب سے بڑے ٹیکس گزار پارلیمنٹرین اور عمومی بہتر شہرت کے مالک جہانگیر ترین کے انتخابی گوشواروں میں حقائق کو چھپانے کے ارتکاب نے رکن اسمبلی کیلئے بھی کڑے معیار کو واضح کر دیا ہے۔ اب اگر جہانگیر ترین رکن اسمبلی کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو آئندہ کے جاری احتسابی عمل میں اسٹیٹس کو کی ہر برائی اور عوام دشمنی میں لتھڑے کیسے رکن اسمبلی کے اہل ہوں گے۔ امیدواروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے یہ سوچنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔
ہوشیار خبردار ۔۔۔ !!

تازہ ترین