گزشتہ دو روز اسلام آباد میں گزرے۔ علامہ اقبال یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے زیراہتمام دو روزہ قومی کانفرنس بعنوان ’’میڈیا اِن پوسٹ ماڈرن ٹائمز، چیلنجز اور امکانات‘‘ میں بھرپور شرکت ہوئی۔ یوں گزری اتوار ’’آئین نو‘‘ کی اشاعت نہ ہوئی۔ اوپننگ سیشن میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی، جناب خورشید ندیم اور جناب سجاد برکی کے موضوع پر عالمانہ خیالات سے آگاہی ہوئی۔ اس سے میڈیا کے جاری اور امکانی کردار کے حوالے سے سنجیدہ قومی مکالمے کے نئے دریچے کھلے۔ اس سال ملک میں میڈیا کے حوالے سے ہونے والی یہ پانچویں قومی کانفرنس تھی جو اس کا پتہ دیتی ہے کہ سوسائٹی اور میڈیا کی وابستگی اور معاشرے اور میڈیا کی اپنی پریکٹس پر ایک دوسرے کے اثرات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ یہ موضوع پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی کہانی ہے۔
کانفرنس کا دوسرا روز میڈیا پر تحقیق کے نئے ایونیوز کے حوالے سے بہت اہم تھا جس میں ملکی یونیورسٹیوں سے آئے ابلاغیات کے پروفیسرز اور پی ایچ ڈی /ایم فل اسکالرز کی گہری دلچسپی بہت واضح تھی۔ ناچیز نے بھی کانفرنس کے ایک سیشن کو چیئر کیا جس میں میزبان وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی بھی شریک ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کے ٹیڈیکس گروپ میں لا اور انگلش لٹریچر کے پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالرز نے اپنی مجوزہ تحقیقی تجاویز پیش کیں۔ کانفرنس کے اختتام پر Social Responsibilties of Media کے عنوان سے وائس چانسلر پروفیسر شاہد صدیقی کی صدارت میں پروفیسر فتح ملک اور وجاہت مسعود کے ساتھ کی نوٹ اسپیکر کے ساتھ موضوع پر اظہار خیال کیا۔
کانفرنس کی ہر ہر علمی سرگرمی میں موضوعات پر جو جو ذاتی اظہارخیال خاکسار نے کیا اور جو کچھ وقت کی کمی کے باعث نہ ہوسکا وہ قارئین خصوصاً موضوع میں دلچسپی رکھنے والے متعلقہ قارئین کے لئے آج کا ’’آئین نو‘‘ ہے۔ کمیونی کیشن سائنس کا بانی پروفیسر ڈاکٹر ولبر شریم جب 1940کے عشرے میں اپنی عالمانہ سوچ، مشاہدوں اور تجربات و تحقیق کے بعد تین صدی سے جاری پیشہ ٔ صحافت سمیت جملہ نوعیت کے ابلاغی عمل (کمیونی کیشن آپریشنز) کو ایک مکمل باڈی آف نالج (ڈسپلن) جیسا کہ فزکس، کیمسٹری، میتھ، اکنامکس اور بڑی تعداد میں جدید و قدیم علوم ہیں، کے طور پیش کیا تو ماس کمیونی کیشن کے غلبے کے ساتھ کمیونی کیشن ایک سائنس بن گئی۔ پروفیسر ولبرشریم نے اس علم کی جدید ترین حیثیت کو یوں واضح کیا کہ اگر کل تہذیب انسانی کے جاری و ساری ارتقائی عمل کو گھڑی کے ڈائل کے بارہ گھنٹوں کے برابر تسلیم کرلیا جائے تو ’’کمیونی کیشن سائنس‘‘ کی پیدائش 11 بج کر 59ویں سیکنڈ پر ہوئی ہے یعنی فرضی 12گھنٹے کی کل انسانی زندگی گزرے آخری سیکنڈ میں اس نے جنم لیا (کمیونی کیشن لینگویج اینڈ سائیکولوجی پبلی کیشن وائس آف امریکہ فورم )
پوسٹ ماڈرن میں میڈیا کے کردار کے جائزے سے قبل ایک نظر اختصار کے ساتھ ماڈرن پیریڈ پر ڈالنا ضروری ہے کہ اس کو میڈیا نے کیا دیا کیونکہ میڈیا اس کے آغاز 1601کی پیدائش ہے جو اخبار۱ت (صحافت) کا سال ِ ظہور ہے (وکی پیڈیا) اس کے بعد خود میڈیا نے ’’ماڈرن ٹائم‘‘ کو جو کچھ دینے میںکردار ادا کیا، وہ کردار سے زیادہ تاریخ عالم کا ایک جادو بھرا دور ہے۔ جس کا بڑا کردار میڈیا یا آزادی اظہارِ رائے) تحریک احیائے علوم، انقلاب فرانس، عوام کو ایمپاور کرنا، برطانوی پارلیمانی ارتقا، چرچ اسٹیٹ کے خلاف بیداری، سیکولر ازم اور پھر نتیجہ سیاسی بیداری اور لبرل ازم کا فروغ۔ اس مختصر عرصے میں اس ارتقائے عظیم کا بڑا فیصد اخبارات و کتاب کی اشاعت کے نہ رکنے والے اور مسلسل فروغ سے ہوا۔ پھرسامراج کے خلاف ان ’’کالونیوں‘‘ میں تحریک ہائے آزادی جو دوسری جنگ عظیم (پوسٹ ماڈرن ٹائم کے آغاز) پر نو آزاد ملک بننے لگے۔ خود متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں قیام پاکستان میں سرسید کی علمی و صحافتی کاوشوں سے قرارداد پاکستان تک، کارواں مسلمہ صحافت کا کردار تاریخ ساز رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والے پوسٹ ماڈرن ٹائم میں ناچیز کی نظر میں میڈیا (جس میں اب الیکٹرونک میڈیا بھی اپنی جملہ شکلوں میں شامل ہوتا گیا) کا کردار عظیم تر ہے۔ یوں کہ اس (میڈیا) نے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے باوجود نئی ظہور پذیر عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین میں اسلحے کی دوڑ تیز تر ہو جانے اور ایک سے بڑھ کر ایک ’’وسیع تر تباہی پھیلانے والے‘‘ اسلحے (WOMDS) کی ایجادات کے متوازی، نظریاتی جنگ یا کولڈ وار کا کامیاب ہتھیار بن کر تیسری جنگ عظیم کے امکانات کوکم ترکر دیا۔ ہر دو نئی عالمی طاقتوں نے پروپیگنڈے (بذریعہ میڈیا) کولڈ وار ایسے اور اتنی لڑی کے طاقت کے غرور اور خمار کا عناد پروپیگنڈے کی شکل میں سرد جنگ سے نکلتا رہا اور ایجاد وسیع تر تباہی کےہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہیں، یوں تیسری عالمی جنگ بھرپور سامان ہونے کے باوجود رکی رہی۔ پروپیگنڈہ سائنٹفک نہ ہوتا تو اس پروپیگنڈے کے بے سمت ہونے سے تیسری عالمی جنگ کا اشتعال پیدا ہوجاتا اور یہ ہو جاتی، لیکن پروپیگنڈہ جو اصل میں اب سائیکلوجیکل وار فیئر برائے تبدیلی نظریہ و رویہ بن چکا تھا، جو اب کمیونی کیشن میں شامل نالج اور ماس کمیونی کیشن کی ایک اسپیشلائزیشن ہے۔ یہ دو عالمی یا علاقائی طاقتوں جیسے امریکہ اور روس یا پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں ایک بڑی رکاوٹ جو حریف طاقتوں میں کتھارسس کا بڑا اہتمام کرکے گرم ہتھیاروں کی تباہ کن جنگ کے امکانات کو محدود کردیتا ہے۔
میڈیا ہی نے اطلاعات کی فراہمی کے جاری و ساری فلو کے متوازی حالات حاضرہ کے تجزیوں سے ’’رائے عامہ‘‘ کی تشکیل کا جو اہتمام کیا، اس نے بھی قیام عالمی امن اور انسانی رویئے کی سنگینی جو سخت گیر حکومتوں اور ملکی پالیسیوں اور سرحدوں کے پار ہمسایوں کے منفی عزائم کو کم تر کرنے، قابو میں رکھنے اور تبدیل کرنے میں سحرانگیز کردارادا کیا۔ گویا نرم ابلاغی ہتھیاروسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جامد کرنے اور آمرانہ اور سامراجی رویوں کو تبدیل اور قابو میں رکھنے میں بے پناہ معاون ثابت ہوا۔
لیکن وہ وقت بھی آیا اور اب پھر سے جب عالمی رائے عامہ جو کشمیر و فلسطین کے دہکتے مسائل پراقوام متحدہ کی قراردادوں کی شکل میں آشکار ہوئی، تو عالمی میڈیا (جو بڑی طاقتوں کا ایجنٹ بن کر )نیشنل ازم کے نام پر عالمی رائے کا حریف بن کر عالمی امن کے لئے خطرہ بن گیا۔ بش انتظامیہ کے عراق پر حملہ رکوانے کے لئے امریکہ کے بڑے شہروں اور یورپی دارالحکومتوں میں ہماری طرح کے نہیں حقیقی ملین مارچ نہیں ہوئے؟ لیکن اس عالمی رائے عامہ کو خطرناک مجرموں نے نظرانداز کرکے ہلاکت کا جو سامان کیا وہ جاری و ساری ہے۔ چند روز قبل پھر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر جو عالمی ر ائے عامہ آشکار ہوئی اس پر امریکہ اور اسرائیل کے سامراجی ر دعمل نے عالمی میڈیا کو پھر ایک چیلنج دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحفظ اور اس کے مقابل واشنگٹن اور تل ابیب کی ہٹ دھرمی کو ختم کرا کر اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو یقینی بنانے کے لئے عالمی ادارے کی قراردادوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کیا پوزیشن لیتا ہے۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ اگر عالمی میڈیا، عالمی رائے عامہ کے برعکس ہر دو مسائل پر مکمل واضح اور آشکار رائے عامہ (بشکل اقوام متحدہ کی قراردادوں) پر عملدرآمد کرانے میں اپنے کمزور کردار یا خاموشی کے باعث ناکام ہو گیا تو قیام عالمی امن کا ’’رائے عامہ‘‘ جیسا ہتھیار جو میڈیا نے پوسٹ ماڈرن ٹائم میں تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لئے تشکیل دیا، جنگ اور دوسرے منفی عالمی رجحانات کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔