• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندھیر نگری اور کالے قولاک نظر بلخاظ رقبہ سب سے بڑے صوبہ کی صورت حال پر۔بلوچستان میں ’’انتہا‘‘ بالآخر ’’عدم اعتماد‘‘ میں تبدیل ہو گئی جو بہرحال جمہوری تقاضوں کے عین مطابق تھی، صورت حال کے غیر جمہوری پن کا اندازہ صرف ان چند جھلکیوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ تن تنہا چھ عدد وزارتیں دبائے بیٹھے تھے ، ہفتہ بھر میں صرف دو دن درشن دیتے، باقی وقت انگلینڈ ،دوبئی، اسلام آباد اور کراچی میں گزارتے، ترقیاتی فنڈز کی تقسیم بدترین عدم توازن کا شکار تھی۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے ساتھی عدم اطمینان کا شکار تھے ۔ کرپشن کی داستانیں ویسے ہی زبان زد عام تھیں جو ہر جگہ ہماری شناخت بن چکی ہیں۔ پوری ٹرم میں ایک بھی ڈھنگ کا پراجیکٹ شروع نہ ہوا اور جو کام چھیڑے گئے وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچے ۔32000 نوکریاں /اسامیاں ’’ایکشن‘‘ کی منتظر اور محتاج ہیں ۔ نوکریوں کا نیلام تو خیر سے ہماری جمہوریت کا حسن ہے ہی۔ ترقیاتی فنڈز کے حوالہ سے اپوزیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا تا رہا۔ پوسٹنگز ٹرانسفرز باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکے تو جو ہو رہا ہے،اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے............’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔کبھی کبھی سوچتا ہوں ’’سلوموشن‘‘ میں پروان چڑھتی جمہوریت کو جوان ہونے میں کم از کم دو تین سو سال تو ضرور لگیں گے ادھر پنجاب میں اشتہار بازی اور سیلف پروجیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہی رقم ضرورت مند مریضوں کی دوائوں پر خرچ کی جاتی تو بہتر تھا۔ کوئی ہے جو بتا سکے کہ ن لیگ نے اپنی حالیہ ٹرم کے دوران کتنے ارب روپیہ اپنی لیڈر شپ کی پروجیکشن پر قربان کر دیا اور کوئی ایسا ہے جو غریب عوام اور ٹیکس پیئرکے خون پسینے کی اس کمائی کا یہ بے دردانہ استعمال روک سکے اور اگر روک نہ سکے تو اس کی حدود کا تعین ہی کر سکے۔ادھر پشاور پر ایک ڈاکیومنٹری دیکھی کہ تجاوزات نے کس طرح اس تاریخی شہر کا تیا پانچا کر رکھا ہے۔ پورے پاکستان میں ناجائز شادی ہالوں کو حکم امتناع دینے سے سپریم کورٹ نے روک دیا تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات میں بگاڑ، بدصورتی، بدکرداری، لاقانونیت کس مقام پر فائز ہو چکی۔ کراچی کو چائنا کٹنگ کینسر ہو گیا ، لاہور کے بیشتر شادی ہالز حرام کے شہکار، بیشمار سرکاری اہلکار لمبی دیہاڑیاں لگا کر ریٹائر بھی ہو چکے ہوں گے تو اس اندھیر نگری میں کالے قول ہی پیش کئے جا سکتے ہیں کہ اقوال زریں کے زمانے تو کب کے لد گئے ۔............معاوضے محدود، اختیارات لامحدود=مکمل تباہی............مٹی کا ہر چلتا پھرتا ڈھیر، مٹی میں ملنے سے پہلے سونے چاندی کے تعاقب میں کیوں رہتا ہے؟............بندر کے ہاتھ میں ماچس کا مطلب ہے۔۔۔۔جنگل کی موت............جیسے ہر لکھنے والا لکھاری نہیں ہوتا، اسی طرح ہر حکمران لیڈر نہیں ہوتا،............لیلیٰ کالی تھی، قیس مجنون یعنی پاگل تھا لیکن پھر بھی یہ داستان ہو گئے۔............لباس دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جسے پہن کر ہم اپنا بدن ڈھانپتے ہیں ، دوسرا وہ جسے پہن کر ہم اپنا ’’اندر ‘‘ عریاں کرتے ہیں۔............صرف موت اور مشین تعصب سے پاک ہوتی ہے............حیرت ہے فلم ساز و ہدایت کار سیاست دانوں کو کاسٹ کیوں نہیں کرتے؟............شاعر، صوفی اور سائنسدان طویل مکالمے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ تو ایک ہی ماں باپ کی بچھڑی ہوئی اولاد ہیں۔............مظلوم نے ظالم سے کہا’’میں نہ رہا تو تم کہاں رہوگے‘‘؟............تلوار بولی’’ڈھال کے ساتھ میرا رشتہ عجیب ہے‘‘............عروج بولا’’میں زوال کا ہم زاد ہوں‘‘............حرف نے ہندسے کو کہا ’’میں تمہارا باپ ہوں‘‘ہندسہ مسکرایا اور بولا ’’باپ ماضی بیٹا مستقبل ہوتا ہے‘‘............خانہ بدوش نے صاحب خانہ سے کہا ’’تم خانہ خراب ہو‘‘............مسائل صرف ’’سائل ‘‘ پیدا کرتے ہیں............غریبوں کی دعائوں میں اثر ہوتا ہے اس لئے ان کی تعداد میں اضافہ بہت ضروری ہے۔............بھوک، بے روزگاری اور بے عزتی تو کہیں بھی کاٹی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین