• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے768واقعات رجسٹرڈ ہوئے جن کے بارے میں کسی صوبائی یا وفاقی ادارے کے پاس کوئی ایسی تفصیل موجود نہیں کہ ان میں سے کتنے کیسوں میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انہیں سزائیں سنائی جا سکیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ ان پر گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی اور چائلڈلیبر کے تحت آنے والے دیگر نوعیت کے مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو صرف رجسٹرڈ جرائم کی تعداد 1764بن جاتی ہے جبکہ اصل حقائق ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ معاشرتی خرابیوں کے خلاف قانون بنانے کا مقصد معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہے اگر پھر بھی حالات جوں کے توں رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں کوئی پہلو ایسا رہ گیا ہے کہ جس سے مزید جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ ہونے والا انسانیت سوز واقعہ اور اسی طرح کے بہت سے دیگر واقعات جو منظر عام پر آنے ہی نہیں دیئے جاتے۔ ان کے وقوع پذیر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ جرائم پیشہ افراد قانون میں کمزوریاں تلاش کر کے اس کا توڑ پیدا کرتے ہوئے یا تو قانون کی گرفت میں نہیں آتے یا عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر باریک بینی سے غور کیا جانا چاہئے۔ نمود و نمائش کے باعث تبدیل ہوتی ہوئی معاشرتی اقدار سےجرائم کے انداز بھی تبدیل ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اصلاحی اداروں، بالخصوص والدین کو چوکنا رہنا چاہئے اور بچوں کی تربیت بدلتی ہوئی اقدار کے مطابق کرنی چاہئے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس واقعہ کوا پنی اصلاح کا ذریعہ بنایا جائےممکنہ پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کو گھر اور اسکول میں تربیت دے کر ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ماضی میں بچوں سے ہونے والے زیادتی کے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں جہاں ضروری ہو، قانون میں تبدیلی کرکےان واقعات کی بیخ کنی کی جائے۔

تازہ ترین