• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزیکٹ کیس،ایف آئی اے شواہد عدالت میں پیش کیوں نہ کیے گئے؟

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز) ایگزیکٹ کیس میں ایف آئی اے کے ٹھوس شواہد عدالت میں پیش کیوں نہ کیے گئے؟تمام شواہد کے باوجود ملزمان رہا ہوکر دوبارہ جعلی ڈگریاں بیچنے لگے، پاکستان کو بدنام کیا،عالمی ادارے سوالات اٹھانےلگےایگزیکٹ کیسزکا خاتمہ مفروضہ نہیں حقیقت ،کئی ججز نے سماعت سے انکار کیا، سابق پراسیکیوٹر کے گھر پر گرینیڈ حملہ ہوا ، نقیب کی ہلاکت ، حقائق پولیس دعوؤں کی نفی کررہے ہیں،یہ کیسا دہشتگرد تھا سوشل میڈیا پر اسکے26 ہزار فالوورز ہیں، نقیب محسود کیس میں مکمل انصاف ہوگا، ہم پر کوئی دباؤ نہیں ،ان خیالات کا اظہار ایگزیکٹ کیس میں سابق پراسیکیوٹربیرسٹر زاہد جمیل اور نقیب قتل کیس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی نے ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ کےمیزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نقیب محسود کے پولیس مقابلہ میں مارے جانے کے واقعہ کی تحقیقات ہورہی ہیں، اس حوالے سے اہم حقائق سامنے آرہے ہیں جو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے اب تک کے دعوؤں کی نفی کررہے ہیں، راؤا نوار تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ،اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور ٹیم کے سامنے چند دعوے کیے جو ہماری تحقیق کے مطابق درست نہیں، ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ تحقیقاتی ٹیم اب تک ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انہیں نقیب محسود کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں، راؤا نوار ان کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کوا بھی تک ثابت نہیں کرسکے ہیں، ایس ایس پی راؤ انوار نے کمیٹی کوبتایا کہ انہیں کراچی جیل میں قید کالعدم سپاہ صحابہ کے کمانڈر قاری احسان نے بتایا تھا کہ نقیب محسود ان کا ساتھی ہے، اس حوالے سے ہمارے ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کراچی سینٹرل جیل گئی اور وہاں ٹیم نے قاری احسان کو نقیب محسود کی تصویر دکھائی لیکن کمانڈر قاری احسان نے نقیب کوپہچاننے سے انکار کردیا، تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ راؤ انوار کا یہ دعویٰ درست نہیں لگتا، اسی طرح ذرائع کے مطابق راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے سچل تھانے میں درج 2014ء کی ایف آئی آر بھی پیش کی جس میں چھ ملزمان میں سے ایک ملزم کا نام نقیب اللہ محسود ہے، یہ ایف آئی آر ہمارے پاس موجود ہے، اس ایف آئی آر کے مطابق پولیس افسر کو دو گاڑیوں میں دھماکا خیز مواد کی موجودگی کی اطلاع ملی، بتایا گیا کہ نقیب اللہ ، مولوی یار محمد اور ان کے چار نامعلوم افراد کسی اہم سیکیورٹی تنصیبات پر حملہ کرناچاہتے ہیں، پولیس پارٹی وہاں پہنچی تو وہاں موجود دہشتگردوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی، پولیس کی جوابی فائرنگ میں چار ملزمان مارے گئے لیکن اس ایف آئی آر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نقیب اللہ اور ایک اور دہشتگرد دونوں کہاں چلے گئے، ہمارے ذرائع کے مطابق اس ایف آئی آر سے نقیب محسود کا تعلق ثابت نہیں ہوتا، یہ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں، یہ ایف آئی آر بوگس معلوم ہورہی ہے، اگر اس ایف آئی آر کو درست مان بھی لیا جائے تو یہ واقعہ 2014ء کا ہے، نقیب محسود کو 2018ء میں پولیس مقابلہ میں مارا گیا، اہم بات یہ ہے کہ اس دوران نقیب محسود کی فیس بک آئی ڈی کچھ اور بتارہی تھی، نقیب اگر اتنا ہی مطلوب دہشتگرد تھا تو ایک عرصے تک پولیس نقیب کی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ٹریک کیوں نہ کرسکی، وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ جس پر اس مبینہ دہشتگرد کے چھبیس ہزار فالوورز ہیں، وہ اکاؤنٹ جس پر مبینہ دہشتگرد اپنی نقل و حرکت کے حوالے سے مستقل تفصیلات بتارہا ہے، یہ وہ مبینہ دہشتگرد ہے جو 2014ء میں ایک پولیس مقابلہ میں جس میں اس نے تنصیبات پر حملہ کرنا تھا فرار ہوا اور 2014ء میں اس پر ایف آئی آر ہوئی لیکن 20جنوری 2017ء کو یہ مبینہ دہشتگرد نقیب محسود بکھر میں تھا اور فیس بک میں تفصیلات بتارہا تھا کہ بکھر میں شدید سردی ہے، یہ مبینہ دہشتگرد 30جنوری 2017ء کو وزیرستان گیا، اس کی اپنی فیس بک پروفائل کے مطابق اور سوشل میڈیا پرتفصیلات بتا کر گیا کہ میں وزیرستان جارہا ہوں، اس مبینہ دہشتگرد نے دو مارچ کو پشاور میں نماز ادا کرنے سے پہلے سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لکھا لیکن پولیس نے اسے گرفتار کیوں نہیں کیا، اسے ٹریک کیوں نہیں کیا اگر یہ اتنا بڑا دہشتگرد تھا، سترہ اگست کو ایک بار پھر یہ مبینہ دہشتگرد وزیرستان گیا، فیس بک پر تفصیلات بتا کر گیا کہ عید کے بعد ملتے ہیں، میں وزیرستان روانہ ہوگیا ہوں، یہ ساری تفصیلات ان کے فیس بک اکاؤنٹ سے دیکھی جاسکتی ہیں، چودہ دسمبر کو یہ مبینہ دہشتگرد کراچی آیا، پھر فیس بک پر تفصیلات بتا کرا ٓیا کہ میں کراچی پہنچ گیا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، پھر سولہ اگست 2017ء کو نقیب ٹانک گیا اور تفصیلات فیس بک پر بتا کر گیا، اتنا مطلوب دہشتگرد تھا لیکن تمام نقل و حرکت کی تفصیلات خود فیس بک پر بتارہا تھا تو پھر اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، اس کی فیس بک آئی ڈی کو ٹریک کیوں نہیں کیا گیا، راؤ انوار نے اپنی رپورٹ میں ایک اور دعویٰ کیا کہ نقیب محسود غیرشادی شدہ تھا، یہ دعویٰ بھی غلط معلوم ہوا کیونکہ ہماری تحقیقات کے مطابق نقیب محسود نہ صرف شادی شدہ ہے بلکہ اس کے تین بچے بھی ہیں، ہمارے پاس نقیب محسود کی بیوی کا شناختی کارڈ بھی ہے، نقیب کی اہلیہ کا نام شیردانہ بی بی ہے اور اس میں درج ہے کہ ان کے شوہر کا نام نصیب اللہ ہے جبکہ نقیب کا شناختی کارڈ پر بھی نام نصیب اللہ ہی ہے، ہمیں اپنے ذرائع سے ایک ویڈیو ہی موصول ہوئی ہے جس میں نقیب محسود کے بچوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، یوں راؤ انوار کا یہ دعویٰ بھی غلط لگتا ہے، سپریم کورٹ اس کیس کا ازخود نوٹس لے چکی ہے اور آئی جی سندھ سے سات دن میں انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے چکی ہے، سی ٹی ڈی نے حساس اداروں اور خیبرپختونخوا انتظامیہ اور فاٹا حکام کو خط لکھا ہے کہ اگر نقیب محسودکا کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہے تو فراہم کیا جائے، تحقیقاتی ٹیم نے آج پولیس مقابلہ کی جگہ کا دورہ کیا اور مقابلہ میں شامل پولیس اہلکاروں سے چھان بین بھی کی۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اس حوالے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں بحث ہوئی، ملک بھر میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں، کراچی میں بھی سپرہائی وے پرا حتجاج ہوتا رہا اور تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ محسود قبیلے کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، احتجاج کرنے والوں کا موقف کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ماضی میں بھی محسود قبیلے کے حوالے سے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں، اس حوالے سے چار جنوری 2015ء کو انگریزی اخبار میں تحقیقاتی صحافی ضیاء الرحمن کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے کراچی میں رہنے والے قبائلی خاص طور پر محسود قبائل کو پولیس کی جانب سے درپیش مسائل کو اجاگر کیا تھا اور ان پولیس مقابلوں کا بھی ذکر کیا تھا جس میں دہشتگرد قرار دے کر محسود قبائل کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، رپورٹ کے مطابق کراچی میں رہنے والے محسود قبائل کے عمائدین کا کہنا تھا کہ چونکہ کالعدم تحریک طالبان کے سرکردہ دہشتگرد بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ولی الرحمن اور خان سید عرف سجنا کا تعلق محسود قبائل سے تھا اس لئے انہیں بھی ان کے قبائلی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے پریشان کیا جاتا ہے اور پولیس ہر محسود کے ساتھ دہشتگردوں والا سلوک کرتی ہے، اگرا نہیں رشوت نہ دی جائے تو گرفتار کر کے مقابلہ میں مارنے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہوتی نظر آتی ہے، رپورٹ کے مطابق پشاور میں سولہ دسمبر 2014ء کو اے پی ایس سانحہ کے بعد سیکیورٹی اداروں نے کراچی کے پشتون علاقوں میں طالبان گروپس کے خلاف آپریشن تیز کردیا تھا جس میں کئی اہم دہشتگرد مارے گئے، ان کارروائیوں کو سراہا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی ماورائے عدالت قتل کے الزامات میں بھی اضافہ ہوگیا تھا، اسی طرح کا ایک پولیس مقابلہ بائیس دسمبر 2014ء کو سہراب گوٹھ کے علاقے ڈیلکس ٹاؤن میں بھی ہوا تھا جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تیرہ مبینہ دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ان متنازع پولیس مقابلوں کی سچائی پر اس وقت بھی سوالات اٹھائے گئے، رپورٹ کے مطابق ڈیلکس ٹاؤن کے مقابلہ میں ہلاک ہونے والوں میں 32سالہ ٹرک ڈرائیور عبداللہ محسود بھی شامل تھا، ڈیلکس ٹاؤن کے رہائشیوں نے اس مقابلہ کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیکیورٹی ادارے ان کے علاقے میں اس سے پہلے بھی کئی جعلی مقابلے کرچکے ہیں، مقامی رہائشیوں کا کہنا تھا کہ پولیس دیگر علاقوں سے مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے یہاں لاتی ہے اور جعلی مقابلہ میں قتل کردیتی ہے، رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاندانوں، قبائلی عمائدین اور سیاسی کارکنوں کا کہنا تھا کہ پولیس قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں اور خاص طور پر محسود قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو ہراساں کرتی ہے ، انہیں حراست میں لینے کے بعد رشوت لینے کے بعد ہی چھوڑ تی ہے، رشوت نہ دینے پر جعلی مقابلہ میں دہشتگرد قرار دے کر ہلاک کردیتی ہے، رپورٹ کے مطابق ایسا صرف محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے عام افراد کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی اس کا نشانہ بنے ہیں، رپورٹ کے مطابق کنواری کالونی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن نذیر اللہ محسود اور ان کے دوست کو 28دسمبر 2014ء کو طالبان دہشتگرد قرار دے کر پولیس مقابلہ میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا، اس سے پہلے سترہ نومبر 2014ء کو جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن کے رہنما مفتی شاہ فیصل محسود کو بھی دہشتگرد قرار دے کر پولیس مقابلہ میں ہلاک کرنے کا دعویٰ سامنے آیا لیکن دونوں جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو بے گناہ قرار دیا، رپورٹ کے مطابق ایک محسود تاجر نے دعویٰ کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے علاقوں میں تعینات پولیس اہلکار بھی دہشتگردوں کو پروٹیکشن منی کے نام پر بھتہ دیتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ محسود واحد پسا ہوا طبقہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی طبقے ایسے شکایات کرچکے ہیں، وہ طبقے استحصال زدہ سمجھے جاتے ہیں، ماضی میں اردو بولنے والے پھر بلوچ پھر سندھی اور اب پختونوں کو یہ شکایت ہے، ایم کیو ایم کو اردو بولنے والوں کی جماعت کہا جاتا ہے لیکن آج ان کی طرف سے ایک اہم پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں پختون نوجوان نقیب اللہ محسود کے معاملہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا، ان کے مطابق خود ایم کیوا یم بھی ایسی چیزوں سے گزری ہے اس لئے ان کا بیان سامنے آنا اہم ہے کیونکہ یہ معاملہ نظام کی کمزوری ہے جو غیرمحفوظ طبقہ کو، کسی خاص لسانیت کو ان کی لسانیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اگر ایک خاص لسانیت غیرمحفوظ ہوجائے، ایک طبقہ غیرمحفوظ ہو تو اس غیرمحفوظ طبقہ کا استحصال کرتا ہے، یہ معاملہ نہ صرف غیرمحفوظ طبقہ کا ہے بلکہ اگر کسی بھی افسر کے پاس ایسے اختیارات آجائیں جس کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہوں جس میں اس کا احتساب نہ ہوتا ہو تو پھر ایک ایسا طبقہ اگر اس کے ہاتھ لگ جائے جو غیرمحفوظ ہو یا متوسط ہو تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کی ماضی کی مثالیں کراچی میں دوسری کمیونیٹیز کی موجود ہیں اب محسود قبیلے کی موجود ہے، سیاسی جماعتیں اس معاملہ کو ضرور اٹھائیں مگر اسے لسانیت کا رنگ نہ دیں کہ یہ ایک سیاسی لسانی مسئلہ نظر آئے بلکہ ایک غیرمحفوظ طبقہ کا مسئلہ ہے جو پہلے بھی کراچی میں بھگتا گیا اب بھی بھگتا جارہا ہے ،طبقے اس لئے غیرمحفوظ ہوتے ہیں کہ جب کچھ افسران کو ایسے غیرمحدود اختیارات دے دیئے جائیں جن کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہو اور انکاؤنٹر کی اجازت ہو اور پھر سار ے معاملات ہورہے ہوں۔ایگزیکٹ اسکینڈل پر میزبان شاہزیب خانزادہ کا تجزیہ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ایگزیکٹ کیا کررہا ہے، یہ سب کو پتا چل چکا ہے، بین الاقوامی میڈیا کی تحقیقاتی خبریں سامنے آرہی ہیں، شواہد سامنے آچکے ہیں اور مزید آرہے ہیں، گواہ سامنے آچکے ہیں اور مزید سامنے آرہے ہیں، امریکا میں ایگزیکٹ کا کاروبار پکڑا گیا، کارندہ پکڑا گیا،اسے سزا بھی ہوگئی، سب کے سب شواہد بتارہے ہیں کہ ایگزیکٹ کرتا کیا ہے، پاکستان میں ہونے والی تحقیقات نے بھی بتادیا تھا کہ ایگزیکٹ کا کاروبار کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹ چلا کون رہا ہے اور ایگزیکٹ کو بچا کون رہا ہے؟ مئی 2015ء میں جب نیویارک ٹائمز نے ایگزیکٹ کی جعلی ڈگری کا دھندہ بے نقاب کیا تو پاکستان میں بہت بڑے بڑے دعوے کیے گئے، ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، ایگزیکٹ کے دفاتر اور جعلی ڈگریاں بنانے والی فیکٹریز میں چھاپے مارے گئے، ایگزیکٹ چلانے والے گرفتار کیے گئے، اس وقت کے وزیرداخلہ نے بھی بڑے بڑے دعوے کیے مگر ہوا کیا؟ تحقیقات ٹھپ ہوگئیں اور ملزمان ایک ایک کر کے چھوٹ گئے اور ایگزیکٹ کی جعلی ڈگری کا کاروبار نئے حربوں کے ساتھ شروع ہوگیا اور پھر پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے لگا، گزشتہ دنوں کے دوران بی بی سی اور پھر گلف نیوز نے ایگزیکٹ کے نئے دھندے کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ایگزیکٹ پھر سے فعال ہوگیا ہے، ایگزیکٹ نہ صرف جعلی ڈگریاں بنارہا ہے بلکہ جعلی ڈگریاں لینے والوں کوبلیک میل بھی کررہا ہے، لوگوں کو سرکاری حکام بن کر کال کی جارہی ہے اور فراڈ کر کے مزید پیسے بٹورے جارہے ہی، بین الاقوامی میڈیا پر خبریں شائع ہونے کے بعد پاکستان کی مزید بدنامی ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے اور ایف آئی اے کو دس دن کے اندر اندر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے حکم دیا کہ جعلی ڈگریوں کے بارے میں جتنے بھی مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں ان کی تفتیش کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی جائیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی ڈگریوں کے معاملہ پر ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے، اگر جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل صحیح ہے تو پھر ذمہ داروں کو ضرور ضرور سزا ملے گی اور اگر یہ خبر غلط ہے تو بطور پاکستانی ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کریں کیونکہ اس سے ملک کو عالمی برادری میں بدنام کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تعلیم اور صحت دوا یسے شعبے ہیں جس میں کوتاہی یا جعلسازی برداشت نہیں کی جاسکتی، یہ واقعی بہت اہم معاملہ ہے اور اب ایک چیلنج ہوگا کیونکہ پہلے ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، نیچے کی عدالتوں میں معاملہ کس طرح سے آگے بڑھ گیا سب نے دیکھا، ججوں کو پیسے کھلانے کے واقعات سامنے آئے سب نے دیکھے اورا س طریقے سے رہائی بھی ہوگئی اور معاملہ آگے بھی نہیں بڑھ سکا، اب چیف جسٹس نے خود نوٹس لیا ہے تو دیکھتے ہیں یہ معاملہ کس حد تک جاتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ تین دن پہلے بی بی سی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ایگزیکٹ کے حوالے سے بہت سے نئے اور اہم انکشافات کیے ساتھ ہی بہت سے متاثرین کے انٹرویوز بھی کیے، بتایا کہ ایگزیکٹ نے 2013ء اور 2014ء کے دوران دو سالوں میں برطانیہ میں تین ہزار سے زائد جعلی ڈگریاں فروخت کیں اور میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ افراد کو جعلی ڈگریاں بیچیں، ہیلی کاپٹر کے پائلٹس کو جعلی ڈگریاں فروخت کی گئیں اور ہزاروں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں، اس حوالے سے بی بی سی کے رپورٹر سائمن کاکس نے مزید انکشافات کیے ہیں، بی بی سی کے رپورٹ نے بتایا کہ ایگزیکٹ کے ملازمین سعودی عرب اور امریکا کی اہم شخصیات کے نام سے بلیک میلنگ کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کا نام بھی لیا گیا۔

تازہ ترین