• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی معاشرہ اشرافیہ یعنی ایلیٹ کے بغیر ممکن ہی نہیں اور بنیادی طور پر یہ ایلیٹ ہی معاشرہ کا رخ، سمت، رفتار، ترجیحات وغیرہ کا تعین کرتی ہے۔ یہ ایلیٹ جتنی اچھی اور بے غرض ہو گی بلکہ یوں کہنا چاہئے جتنی کم خود غرض ہوگی، معاشرہ اتنا ہی کامیاب۔ دوسرے لفظوں میں ایلیٹ بھی جمہوریت کی طرح ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہے یعنی ایلیٹ تو ہونی ہی ہونی ہے لیکن جتنی ’’ڈھیٹ ایلیٹ‘‘ ہم پر مسلط ہے۔ ایسی شاید ہی کسی اور معاشرہ کی گردن پر سوار ہو کہ یہ تو ڈھٹائی، بے حیائی کے شاہکار ہیں اور وجہ ہے ہماری اس ایلیٹ کا خصوصی بیک گرائونڈ کہ اس کا ایک حصہ برطانوی سامراج کی پیداوار ہے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد منظر عام پر ابھرا، دوسرا حصہ 1947ء کی آزادی کے بعد جعلی کلیموں اور دوسری بیشمار وارداتوں کے نتیجہ میں سامنے آیا اور کیچوے سے سانپ، سانپ سے اژدھے میں تبدیل ہو کر اس نے اقتصادیات سے لیکر اقدار تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بذریعہ سیاسی اقتدار۔70 سال بعد آج بھی یہ ملک بعداز جنگ آزادی (1857) اور بعد از آزادی (1947) والی ایلیٹ کے رحم و کرم پر ہے جن سے رحم و کرم کی توقع ہی پاگل پن ہے۔ یہاں اس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ ان دونوں قسم کی ایلیٹ میں مستثنیات بہرحال موجود ہیں لیکن بھاری اکثریت رحم اور شرم سے عاری ان لوگوں کی ہے جن کے بارے ہمارے صوفی شاعر نے کہا تھا؎’’نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایا‘‘’’نیچوں کی اشنائی‘‘ ہی ہمیں یہاں تک لے آئی ہے تو بھائی! اس کی تاریخی وجوہات ہیں۔ کالم شروع کرنے سے پہلے میں کسی ٹی وی چینل پر اک ایسے سرتاپا بے شرم، بے حیا کو سن رہا تھا جو انتہائی خشوع و خضوع سے پنجاب کے چیف منسٹر اور ان کے برخوردار کا یہ کہتے ہوئے دفاع کررہا تھا کہ ان میں سے کسی کے گھر، دفتر کے باہر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا بیرئیرز موجود نہیں۔ سیکورٹی کیلئے صرف چند اسکینرز ہیں۔ بیعانہ اور سپےسی فکیشنز (SPECIFICATIONS) دے کر بنوایا گیا، کوئی کسٹم میڈ بے حیا بھی اپنے آقائوں کا اس طرح دفاع نہیں کرسکتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس خاندان نے رائے ونڈ سے لیکر ماڈل ٹائون تک ایکڑوں کے حساب سے تجاوزات، ناجائز قبضے کر رکھے ہیں، لوگوں کے رستے روک رکھے ہیں اور وہ بھی سیکورٹی کے نام پر، ’’خطرے‘‘ کی آڑ میں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ایویں نہیں کہہ دیا کہ خطرہ ہے تو وہاں شفٹ ہو جائو جہاں خطرہ نہیں ہے۔پنجابی میں کہتے ہیں ’’فلاں کو چڑھی لتھی کی کوئی پروا نہیں‘‘ تو یہ ہماری اس لنڈے کی ڈھیٹ ایلیٹ پرفٹ بلکہ سپر فٹ ہے۔ ایک اور نابغہ منڈیا سیالکوٹیا فخریہ کہتا پھر رہا ہے ’’میں نے سال پہلے کہا تھا کہ لوگ پاناما بھول جائیں گے تواب لوگ بھول چکے ہیں‘‘ اس ’’ایلیٹ‘‘ سے کوئی پوچھے کہ بظاہر تو لوگ سقوط ڈھاکہ بھی بھول چکے ہیں تو تمہارا مطلب کیا ہے؟ اور اللہ جانے لوگ بھولے ہیں یا نہیں، تمہارے باس کو تو یاد ہے جو دن رات ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے ورد میں مصروف ہے اور پھر ابھی تو پہلا ایپی سوڈ چلا ہے، پورا سیریل باقی ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈھیٹ ایلیٹ قدم قدم پر ننگے جھوٹ بولتی ہے مثلاً ان کا فیورٹ تکیہ کلام ہے کہ ....’’جمہوریت چلتی رہنی چاہئے‘‘حالانکہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہماری لاٹریاں نکلتی رہنی چاہئیں اور اس بدبودار جملے کا اصل مطلب یہ ہے کہ....اس ملک میں بھوک، غربت، بے روزگاری چلتی رہنی چاہئے۔بیماری، بدامنی جاری رہنی چاہئے۔ پروٹوکول جاری رہنا چاہئے۔ملکی وسائل کی لوٹ مار جاری رہنی چاہئے۔قرضے جاری رہنے چاہئیں۔تجارتی خسارہ بڑھتا رہنا چاہئے۔خط غربت پر آبادی میں اضافہ ہوتا رہنا چاہئے۔پی ایچ ڈیز کو بے روزگار پھرتے رہنا چاہئے۔عوام کو سنکھیا، فضلہ ملا پانی پیتے رہنا چاہئے۔قتل، اغوا، ڈاکے، ناجائز قبضے، بھتے، تاوان، رشوت، کمیشن، کک بیک کا کلچر جاری رہنا چاہئے۔اقربا بلکہ چمچہ، کڑچھا پروری یعنی عوام کے بازو پر شکرے پالنے کا مکروہ عمل جاری رہنا چاہئے یعنی تین تین نسلوں کو نمک چٹانا۔حیدرآباد سندھ میں 150نوکریوں کیلئے 25000امیدوار والی روایت بھی جاری رہنی چاہئے100000000 یعنی وغیرہ وغیرہ۔دس سال ہوگئے اس کوٹیکنا، پاناما، اقامہ جمہوریت کو... خود ہی فیصلہ کرلیں بہتری آئی ہے یا بدتری نے ضربیں کھائی ہیں؟ 88ارب ڈالر کا ریکارڈ جمہوری قرضہ، 17ارب ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ، سوا 5لاکھ گریجوایٹ بے روزگار، پاکستان ان ملکوں میں چوتھے نمبر پر پہنچ چکا جن کے ڈیفالٹر ہونے کا خطرہ ہے، اسٹیل مل تا پی آئی اے جیسے ’’جمہوری بھانڈے‘‘ برائے فروخت اور پارلیمنٹ مقدس؟ وزیراعظم چیئرمین ’’نیب‘‘ کے بھیجے سارے نام مسترد کر کے وہاں اپنا کوئی روبوٹ بھرتی کرانا چاہتا ہے تو ایسی جمہوریت واقعی جاری رہنی چاہئے لیکن اتنا ضرور مان لیں کہ یہ ’’ڈھیٹ ایلیٹ‘‘ شرم و حیا سے عاری ہے اور جو اس جمہوری ڈھٹائی کو مزید 70سال جاری رکھنا چاہے، سر آنکھوںپر۔’’ڈھیٹ ایلیٹ‘‘ زندہ باد۔باقی سارے مردہ باد۔اور ہاں بھوکے، بےروزگار زندہ انسانوں کے پیٹ کاٹ کر مردہ لوگوں کی تشہیر کا دھندا بھی جاری رہنا چاہئے۔

تازہ ترین