• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ،عمران کے گھر کا نقشہ منظور شدہ نہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل

Todays Print

اسلام آباد( رپورٹ :رانا مسعود حسین/جنگ نیوز) عدالت عظمیٰ نے ’’بنی گالا میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات‘‘ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران راول ڈیم کے اردگرد کی اراضی لیز پر دینے کی مکمل تفصیل طلب کر لی ہے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ایک ہفتے کے اندر اندر پی ٹی آئی کے چیئرمین، عمران خان کے بنی گالا کے گھر کی تعمیر کے سائٹ پلان اور دیگر متعلقہ دستاویزات کی تصدیق کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے ،عمران خان کو حفظ ماتقدم کے تحت 20 لاکھ روپے سی ڈی اے کے پاس جمع کرانے کا مشورہ بھی دیاہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنی گالا میں عمران کے گھر کا نقشہ منظور شدہ نہیں، جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ تصدیق کرائی جائے گی، عدالت نے راول ڈیم کے ارد گرد دی گئی سرکاری زمین کی لیز کا ریکارڈ طلب کرلیا،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی توپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ،عمران خان کی جانب سے عدالت کے ایک پچھلے حکم کی روشنی میں بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے نقشے کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیںتو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا بنی گالا اراضی کا نقشہ منظور کیا گیا تھا؟ کیا تعمیر نقشے کے مطابق ہوئی ہے ؟انہوں نے مزید کہا کہ قانونی طریقہ کار یہ ہے کہ نقشہ جمع کرا کے متعلقہ محکمے سے اس کی منظوری لی جاتی ہے اور پھر اس اراضی پر نقشے کے مطابق تعمیراتی کام کیا جاتا ہے اور اس کے مکمل ہونے کے بعد اس کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے، جس پر ا یڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے بنی گالا کی دستاویزات سے متعلق یونین کونسل بارہ کہو کا ریکارڈ چیک کرایاہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان نے 1999 سے آج تک سائٹ پلان کی منظوری نہیں لی ہے ،جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ یونین کونسل بارہ کہوکااین او سی 1990 کا ہے،انکے موکل نے زمین خریداری کی فیس 2002 میں ادا کی اور 250 کنال اراضی پر گھر کی تعمیر کے لیے نقشہ یونین کونسل میں جمع کرایا تھا اور 2003 میں سرٹیفکیٹ بھی موصول ہوا تھا، عدالت کے استفسارپرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم ریکارڈ دیکھ کر ہی بتا سکتے ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے فراہم کردہ ،گھر کے نقشے کی دستاویزات کی پہلے تصدیق کرائی جائے، جس پر عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس وقت نقشے کی منظوری کا قانون ہی موجود نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی مخالف حکومت ان کے گھر کے نقشے کی تصدیق نہ کرے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ازراء تفنن کہا کہ ہم اس معاملے کی تفتیش کرالیں گے یا اس کے لیے جے آئی ٹی بنا دیں گے، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جو جے آئی ٹی پہلے بنی ہوئی ہے، وہی کافی ہے، جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا ،دوران سماعت سی ڈی اے کے ممبر پلاننگ اسد کیانی نے راول ڈیم کے اردگرد سینکڑوں کنال زمین لیز پر دینے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت میں نصب ملٹی میڈیا پروجیکٹر پر بنی گالہ اور راول ڈیم کے قریب کی گئی تعمیرات کے حوالے سے پریذنٹیشن دی، ، عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے حکام مکمل سچ نہیں بتا رہے ہیں، ایک ٹی وی اینکر کے پاس بیس اور چالیس کنال رقبے کی دو لیز زہیں، سی ڈی اے نے یہ سب ٹھیکے منظور نظر افراد کو دے رکھے ہیں، کوئی اشتہار دیا گیا اور نہ ہی بولی ہوئی ہے یہ صاحب پی ٹی وی کے ایم ڈی بھی رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا نام کیا ہے؟تو سی ڈی اے کے ممبر پلاننگ نے کہا کہ معلوم کرنا پڑے گا ،جس پر فاضل وکیل نے بتایا کہ ان کا نام محمد مالک ہے اور انکے پاس دو لیز ز ہیں،فاضل وکیل نے مزید نے بتایا کہ راول ڈیم کے ساتھ سی ڈی اے نے ایک چھوٹے سے اخبار کے مالک کو بھی لیز دی ہے اور تین شادی ہال بنے ہیں، وہاں ہونے والی تین شادیوں میں شریک ہو چکا ہوں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ تیس سال کیلئے زمین لیز پر دی گئی، یہ کیسے ہوا؟ جس پر لاء افسر نے بتایا کہ ایف ون ٹریک ریس کیلئے لقمان علی افضل کو تین ایکڑ زمین تیس سال کیلئے لیز پر دی گئی ہے ، جس پر فاضل عدالت نے سی ڈی اے کو راول ڈیم کے گرد لیز پر دی گئی اراضی سے متعلق تفصیلات(کہ لیز کتنے عرصے کے لیے اور کتنی قیمت پر دی گئی ہے) جمع کروانے کی ہدایت کی ،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا راول ڈیم کے اردگرد آبادی کو ریگولرائز کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے ؟ جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے 1999 میں فیصلہ دیا تھا تاہم 20 برس گزر جانے کے باوجود سی ڈی اے نے اس حوالے سے اب تک کوئی قوائد و ضوابط کیوں نہیں بنائے ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان مسائل کا تعلق براہِ راست زندگی کے بنیادی حقوق سے ہے ، آج چیئرمین سی ڈی اے کو بھی عدالت میں ہونا چاہیے تھا، انہوںنے استفسار کیا کہ کیا راول ڈیم کے اردگرد کی سرکاری زمین کی لیز قواعد و ضوابط کے مطابق کی گئی تھی ؟ تو عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اراضی نیلامی کے بغیرہی لیز پر دی گئی ہے ،فاضل چیف جسٹس نے ممبر پلاننگ سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ راول ڈیم کے اردگرد آبادی کا فضلہ اور سیوریج کا پانی کہاں جارہا ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ پانی راول ڈیم میں جارہا ہے اور ٹریٹمنٹ کے بعد پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے، انہوںنے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ راول ڈیم کاپانی صرف راولپنڈی کودیاجاتاہے،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی میں شامل گندگی کوختم کیاجارہاہے یانہیں؟کیا حکومت پنجاب نے ٹریٹ کیے گئے پانی کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ اگر ٹریٹمنٹ درست نہیں تو یہ پانی صحت کیلئے مضر ہے،فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے ملین فضلہ آگے جا رہا ہے؟،پانی کی ٹریٹمنٹ آ پ نے دیکھی ہے ، جراثیم کش ہے ، جس پر ممبر پلاننگ نے عدالت کو بتایا کہ یہ تمام اختیارات واسا کے پاس ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب گورنمنٹ سے پوچھتے ہیں پانی کی ٹیسٹنگ کراتے ہیں یا نہیں،ٹریٹمنٹ پورا نہیں ہو رہا ہے پینے کیلئے لوگوں کو گندگی مل رہی ہے لوگوں کو مضر صحت پانی پلایا جا رہا ہے،انہوںنے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ایک مثالی شہر ہونا چاہیے مگر یہاں پوش سیکٹرز میں بھی تجاوزات کی گئی ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے اور پینے کیلئے صاف پانی دستیاب نہیں ہے ، کورنگ نالے میں رہائشی علاقوں کی گندگی جارہی ہے اور یہی پانی راولپنڈی کے رہائشیوں کو فراہم کیا جا رہا ہے ،عدالت کے استفسار پرسی ڈی اے کے ممبر پلاننگ اسد کیانی نے بتایا کہ اسلام آباد کے شہریوں کیلئے پانی سملی ڈیم سے فراہم کیا جا رہا ہے، انہوںنے بتایا کہ سملی ڈیم اور راول ڈیم میں پانی بہت کم ہو گیا ہے، خان پور ڈیم کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی ہے، ہم خشک سالی کی حالت سے دوچار ہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نہ کرے کل یہ صورتحال تربیلا ڈیم میں بھی ہو سکتی ہے ، پھر کیا کریں گے؟ کالاباغ ڈیم کا ہمیں نہیں پتہ کیا ہوگا، مجید نظامی مرحوم نے بہت پہلے واٹر بم کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا تھا، ایک جانب پانی کی کمی ہے اور دوسری جانب پانی کو آلودہ کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ آج تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری کس پرڈالیں ؟کیونکہ ہر شخص کہتا ہے کہ میرے دور میں نہیں ہوا ہے، رممبر پلاننگ نے کہا کہ ،تربیلاسے پانی کے حصول کامنصوبہ 5سالہ میں مکمل ہوگا، ممبر پلاننگ نے مزیدکہاکہ نالہ کورنگ کے ساتھ مزیدتعمیرات پرمکمل پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ تمام تعمیرشدہ عمارتوں کوریگولرائزڈ کرناہوگا،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ جوبات عدالت میں کہی جارہی ہے کیااس حوالے سے آپ نے کوئی پلان بنایا ہے، جس پر انہوںنے کہاکہ ہماراپلان یہ ہے کہ اگرعمارتیں ریگولرائز ہوں گی ،توہم چارجزلے کرپانی کے علاوہ تمام سہولتیں فراہم کریں گے،جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ 20سال سے سی ڈی اے نے کوئی ریگولیشن نہیں بنائے ہیں،ممبر پلاننگ کا کہنا تھا کہ ریگولیشن ہیں لیکن نالہ کورنگ کیساتھ تعمیرات غیرقانونی ہیں ،سی ڈی اے نے اپنے ریگولیشن پرعمل نہیں کرایا ہے،جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیاراول ڈیم کے قریب دی گئی لیز قانون کے مطابق ہے،ممبر پلاننگ نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کرہی بتاسکتاہوں قانون کے مطابق ہیں یانہیں ہیں جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پیرتک تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں،، دوران سماعت وزیرمملکت برائے ، کیڈ طارق فصل چوہدری عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کی جماعت کی حکومت کب سے ہے؟ تو انہوںنے بتایا کہ 2013سے ہے جس پرفاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے غیرقانونی آبادیوں کو ریگولر کرنے اور راول ڈیم میں گندا پانی جانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟تو انہوںنے بتایا کہ راول ڈیم کے اردگرد بنی آبادی ڈیم بننے سے بھی پہلے کی ہے،جس چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے نالہ کو رنگ کے ساتھ 3دن تک کیمپ لگایاہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں میں اس کی رپورٹ لے کر آیا ہوں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے ،بعد ازاں فاضل عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزیدسماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ 

تازہ ترین