• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہندوستان ہمیں ایک بڑی مارکیٹ تک رسائی دیگا لیکن ہم دو ملکوں میں بے شمار معاشی عدم مساوات ہے۔ اولاً ہندوستا ن انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(IMF) سے قرض نہیں لیتا جو کہ ترقی پذیر معیشت میں افراط زر میں کمی کا باعث ہے۔ آزاد معیشتیں نوبل انعام یا فتہ امرتیہ سین کی رائے کے مطابق (IMF) کی پالیسیوں کو مقامی ترجیحات کے مطابق ڈھال لیتی ہیں جسکی ایک روشن مثال ملائیشیاسے ملتی ہے۔اسکے بعد پاکستان اور ہندوستان میں زرمبادلہ کا فرق ہے۔ روپیہ اور ڈالر کا موازنہ کریں تو ہندوستانی روپے61 کے مقابلے میں پاکستانی روپے102 کا ایک ڈالر ہے۔ یہ ایک بنیادی عنصر ہے۔ محصولات اور سیلز ٹیکس اس تناسب سے صارفین پر لاگو ہوتا ہے۔ ہندوستان میں سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے 12 فیصد تک ہے جو کہ ہر ریاست میں مختلف ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ شرح 15سے 17فیصد ہے جو کہ تمام صوبوں میں یکساں ہے۔پاکستان میں مفروضہ ٹیکس کا نظام ہے جو کہ بیجک (invoice)کا 5 فیصد سے 6 فیصد ہے چاہے آمدنی ہو یا نقصان ۔ ہندوستان میں ایسا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ ہندوستان میں شرح سود پاکستان سے کم ہے اور تجارتی حجم پاکستان کے مقابلہ میں زیادہ ۔ہندوستان میں بنیادی تنصیبات (infrastructure) کے استعمال کے اخراجات پرمالی اعانت ہے جو پاکستان میں نہیں۔اسکے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان میں اگر گاڑیوں اور موٹرسائیکل کی مثال لیں تواگرچہ حکومت کی محصولات کو نفی کر کے انکا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن انکی قیمت فروخت کا موازنہ ممکن نہیں، قبل اسکے کہ پاکستان ہندوستان سے تجارت کا آغاز کرے معیشت کو ایک سطح پر کرنے کیلئے جس میں بے شمار تجارتی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ضروری اقدامات کی ضرورت ہے۔تاکہ دو مختلف معیشتوں کو اس تجارت کے فوائدملیں اور ان میں ہم آہنگی ہو۔گاڑیوں کی صنعت میں بے شمار دیگرتضادات ہیں پاکستان کے اندر اور بمقابل ہندوستان وہ پرزہ جات جو کہ مارکیٹ میں فاضل پرزہ جات کے طور پر بیچے جاتے ہیں اور وہ پرزہ جات جو گاڑیوں کے بنانے میں استعمال ہوتے ہیں پر کسٹم محصولات کی شرح ایک ہے۔ پھر ٹرکوں کے اجزاء اور پرزہ جو ردّی (scrap) کے طور پر درآمد ہوتے ہے۔جسے ٹرکوں کی صورت میں جوڑ کر بنایا جاتا ہے۔ ایسی پالیسی سے تجارت کو نہ کہ صنعتوں کوفروغ ملتا ہے۔ ہمارے سامنے مثال موٹر سائیکلو ں کی ہے جنہیں بہت ہی کم قیمت پر درآمد کیا گیا اور کسٹم میں بہت ہی کم محصول ادا کیا گیا ۔ یہ غیر منظم شعبوں کو جنم دیتے ہیں جن کی قیمت منظم شعبوں پر اور اس میں کی ہوئی سرمایہ کاری پر پڑ تا ہے۔ ایسی ہی مثالیں گاڑیوں ۔ تجارتی شعبوں میں استعمال گاڑیوں ٹرک اور ٹریکٹروں میں بھی ہے اور ایسی ہی مثالیں دوسرے انجینئری سامان ٹی وی ، ائیرکنڈیشنر ، گھریلواستعمال کی اشیاء میں بھی ہے ۔ اس قسم کے کاغذی اسمبلر(brief case assembly) نے سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا ہے جسے کافی لمبے عرصہ میں وقت ، محنت اور سرمایہ کاری کے ذریعہ ملک میں کیا گیا تھا۔
یہاں پر ایک کیس بنتا ہے کہ فاضل پرزہ جات پر ڈیوٹی کی شرح کو درست کیا جائے۔ فاضل پرزہ جات پر ڈیوٹی کی شرح کو موجودہ شرح سے 50فیصدبڑھادینا چاہیے تاکہ اس برائی کو ابتداہی میں ختم کردیا جائے۔ مزید یہ کہ پرزہ جات کی مقامی پیداوار کو یقینی بنانا جائےاور انہیں مناسب تحفظّ ملنا چاہئےاس وقت تک کہ معیشت کی مسابقتی حیثیت بین الاقوامی طور پر مستحکم نہ ہو جائے ۔ کچھ بھی ہو ہمیں ملکی مفاد میں یہ اصلاح کرنی چاہئے۔ سستے داموں میں پرزوں کو درآمد یا بیجک میں کم قیمت کا اندراج کرکے پرزوں کی درآمد کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ایسے سامان کو ہرگز کسٹم سے کلیئر نہیں ہونا چاہئے ۔
دوسری جانب اگر مقامی صنعت برآمد کرنے کے قابل ہوگئی ہے تو اُسے وہ مراعات فراہم کرنی چاہئیںتا کہ وہ اپنی پیداوار کو برآمد کرسکے۔ ان طریقہ کار کے ذریعے مقامی صنعت کی پیداواری صلاحیت اجاگر ہوگی۔ سرمایہ کاری بڑھے گی پیداوار اور برآمد کے ذریعے روزگار کے مواقع نکلیں گے اور حکومت کو محصولات ملیں گے جسکی ان کو اشدضرورت ہے۔مندرجہ بالاگاڑیوں کی صنعت کی صورت حال یہ واضح کرتی ہے کہ کیوں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا نہیں ہورہے ۔ یہ مزید وضاحت کرتی ہے کہ کیوں آمدنی کم ہورہی ہے اور روزگار کے ذرائع ناپید ۔ خاص طور پر پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کیلئے ۔ انجینئر ، ایم بی اے، آئی ٹی گریجویٹ وغیرہ وغیرہ ۔11/9کے بعدپڑھے لکھے لوگوں کو بیرون ملک ملازمت کیلئے ویزے کم ہی ملتے ہیں۔اور جوبا ہر ملازمت کررہے ہیں ان کی ملازمت ختم ہورہی ہے اور وہ ملک واپس آرہے ہیں جہاں ان کیلئے ملازمت کے ذرائع ناپید ہیں۔ بے روزگاری ملک کا ایک بہت بڑامسئلہ بن رہی ہے جسے کوئی بھی حکومت برداشت نہیںکرسکتی۔ جب ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو تی تو غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن اسکا دوسرا رخ پوری طرح سے لاگو نہیں ہوتا۔غیر ملکی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کیلئے سیاسی استحکام اور معاشرتی ومعاشی مضبوطی ضروری ہے۔ سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے قوانین کی موجودگی اور مقامی منڈی میں مقابلہ کی صحیح فضا سرمایہ کاری کیلئے کشش پیدا کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے اور کوئی وجہ نہیں ہوتی ۔ اگر معیشت مکمل آزاد ہو، بیرونی سرمایہ کار اس منڈی کو پسند کریگا جہاں مستحکم حکومت ہو، ملک میں امن ہو، قانون کی حکومت ہو اور معاشرتی و معاشی ہم آہنگی ہو جو کہ پاکستان جیسے ملک میں عنقا ہے ۔ یہ سب نہ ہوتو بیرونی ملک کو صرف دوستی کی بنیاد پر یا کوئی اور ترغیب دے کر بیرونی سرمایہ کاری پر راغب نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تک ملک میں حالات سازگار نہیں ہوتے بیرونی سرمایہ کاری ایک سراب ہی رہے گی!
اگر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو معیشت میں کلی بنیاد پر پچھلے کچھ سالوں میں کسی حد تک توازن آیا ہے۔ اسلئے اب یہ ممکن ہے کہ سر مایہ کاری کیلئے حالات کو سازگار بنانے کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔جتنی اہم مستحکم حکومت اور معاشی ومعاشرتی ہم آہنگی ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افرودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں ۔
ان میں سب سے پیشتر ہمیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کو کافی سوچ سمجھ کر بتدریج اور اس وقت لاگو کرنا ہے جب پا کستان کی معیشت کی مسابقتی حیثیت بین الاقوامی طور پر مستحکم ہو جائے ۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حا لات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپناناہے۔ہمیں بین الاقوامی سوچ وفکر کو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ ملائیشیا جیسے ملک کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ اس وقت تک جب ملک میں ذرائع اور زرمبادلہ کے مناسب ذخائر ہوںصنعتی پالیسی ایسی وضع کی جاسکتی ہے جوبیک وقت ان صنعتوں کو تحفظّ اورفروغ دے جو برآمد کرتی ہیں، جودرآمد کے متبادل ہو ںاور کلیدی صنعتیں ہوں۔ گاڑیوں کی صنعت کو مثال کے طور پر پروان چڑھایا جاسکتاہے اور وہ بین الاقوامی مسابقتی معیار پرآسکتی ہے۔ ہندوستان میں گاڑیوں کی صنعت ، مثال کے طور پر ٹیکس اکھٹاکرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ اس انڈسٹری نے یہ مقام پرزوں کی تیاری اور قدر افزودگی (value addition) پر کوشش مرکوز کرکے حاصل کی۔ محض پرزوں کو جوڑ کر گاڑیا ں تیار کرکے نہیں۔ملکی وسائل نے جس میں بہترین افرادی قوت اورفعال کاروباری طبقہ شامل ہے 4 فیصد جملہ قومی پیداوار میں افزودگی کو اس وقت ممکن بنایاجبکہ معاشرتی اور معاشی مشکلات حائل تھیں ۔ قومی پیداوار میں افزودگی اس وقت ممکن ہوئی جبکہ مختلف وجوہ کے باعث غیر یقینی صورت حال تھی۔ لیکن حکومت کی حکمت عملی واضح تھی اگرچہ یہ نامکمل اور غیر متوازن تھی ۔ بہتر رہنمائی ۔ تجربہ۔ مہارت اور دوراندیشی کے ساتھ ہمیں یقین کرنا چاہئے کہ یہ قومی مسائل حل کرلئے جائیں گے ۔ دیر یا بدیر۔ جس میں سرمایہ کاری ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو روزگار مہیا کرنا۔ اور حکومت کی آمدنی اور اخراجات کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے تاکہ ہم معیشت کو افزودگی کی طرف لے جائیں جو سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کا باعث ہو:
اس مایہ کے تین نام
پرسو پرسا پرس رام
تازہ ترین