• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشین گیمز میں پاکستانی دستہ

تحریر:آصف ڈار

18ویں ایشین گیمز کے شروع ہونے میں دو ہفتہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔ نگران حکومت اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے درمیان گزشتہ ایک ماہ سے کھیلوں میں حصہ لینے والے دستہ کی تعداد متعین کرنے کی رسہ کشی ختم ہو چکی ہے۔ گورنمنٹ اس کی تعداد کو گزشتہ پرفارمنس کو مدنظر رکھتے ہوئے 140 پر محدود کرنے پر زور دے رہی تھی جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اس کو 358تک بڑھانے پر بضد تھی۔ راقم انہی صفحات پر اس کشمکش کو نورا کشتی قرار دے چکا ہے اور یہ بھی عندیہ دیا تھا کہ حسب روایت اس کا انجام مک مکا پر ہوگا۔

کوئی بھی گورنمنٹ ہو جب بھی کبھی میگا گیمز میں دستہ کی تعداد کا معاملہ آتا ہے تو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پرفارمنس کی بجائے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد کے لئے فنڈ مانگتی ہے۔ گورنمنٹ اس کو کم کرنے کا عندیہ دیتی ہے اور اس کا مقصد بھی دستہ میں اپنا حصہ بڑھانے پر ہوتا ہے۔ بالآخر معلاملات طے پا جاتے ہیں اور اولمپک ایسوسی ایشن اور گورنمنٹ کے نمائندے اپنا اپنا حصہ لے کر عموماً اولمپک ایسوسی ایشن کے کوٹہ پر اتفاق کرلیتے ہیں۔ ہاکی، کبڈی، سکواش اور ایک دو انفرادی کھلاڑیوں جن کی تعداد آفیشلز سمیت 50کے قریب ہونی چاہئے، پر مشتمل دستہ ایشین کھیلوں میں مقابلہ کی سکت رکھتا ہے اور اکا دکا میڈل کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس سے اوپر کی تعداد صرف اور صرف سیروسیاحت کیلئے انڈونیشیا جائے گی اور وہاں ان کے حریف ان کے ساتھ کھلونوں کی طرح کھیلیں گے اور دنیا ہنسے گی۔

چیف جسٹس صاحب ڈیم بنانے کیلئے عوام سے چندہ مانگ رہے ہیں۔ کیا وہ ان سیروسیاحت پر جانے والوں اور ادھر ملک کے لئے جگ ہنسائی بننے والوں سے نہیں پوچھ سکتے کہ قومی دولت کا زیاں کس خوشی میں کیا جا رہا ہے۔ ایک کھلاڑی کی حکومت آنے پر کھیلوں کے شائقین نے بگڑے ہوئے نظام کی بہتری کے لئے بہت سی امیدیں باندھ لی ہیں۔ واضح رہے کہ ان کے آنے سے بھی یہ بگڑا ہوا نظام اتنی آسانی سے سیدھا نہیں ہوگا۔ خان صاحب کا علم کرکٹ اور ایک آدھ کھیل پر تو لازماً بہت اچھا ہوگا لیکن کیا وہ 35 سے زیادہ دیگر کھیلوں پر بھی اتنا ہی ہوگا ان کھیلوں کے لئے ان کو گورنمنٹ کے اداروں اور دیگر جاننے والوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ اداروں میں بھرتی کا معیار بہت عرصہ سے رشوت اور سفارش پر چل رہا ہے۔ جعلی ڈگریوں والے بھی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس طرح کے ادارے مک مکا تو کرسکتے ہیں نظام کو بہتر کرنے کے کسی طرح بھی قابل نہیں ہیں۔

کھیلوں کی تنظیموں کا نظام تحصیل کی سطح سے شروع ہو کر اولمپک ایسوسی ایشن تک جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اوپر سے شروع ہو کر صوبائی سطح تک ختم ہو جاتا ہے۔ سوائے چند کھیلوں کے کتنے کھیلوں کی تنظیمیں ڈویژنل، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر فعال ہیں۔ آج ایک کروڑ کی آبادی کے شہر لاہور میں کتنے لوگ جیولین پھینکیں گے، ہرڈلز پھلانگیں گے، سٹیپل چیز کریں گے یا میراتھن کی پریکٹس کریں گے۔ اگر لاہور میں یہ حال ہے تو لودھراں، راجن پور اور باقی صوبائی شہروں میں کیا حال ہوگا۔

اس بگڑے ہوئے نظام کو سیدھا کرنے کے لئے ہر سطح کی تنظیم کے لئے اہل، ایماندار، محنتی اور قومی جذبہ رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوگی۔ ان افراد کو تلاش کرنا یا تیار کرنا مشکل ضرور ہوگا لیکن ناممکن ہر گز نہیں۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کا چیلنج نئی گورنمنٹ کس طرح قبول کرتی ہے، یہ دیکھنے کی چیز ہوگی اور اسی پر ہماری کھیلوں کی بین الاقوامی سطح پر پرفارمنس منحصر کرے گی۔

آخر میں پھر دہرائوں گا کہ ایشیائی کھیلوں کیلئے جانے والے دستہ پر نظرثانی کی جائے۔ یہ کام نگران حکومت کرے یا آنے والی سیاسی حکومت ، اس کا فائدہ ملک کو ہوگا اور اگر 245 گورنمنٹ کے خرچہ پر اور 100 کے قریب اپنے خرچہ پر مشتمل دستہ بھیج کر انڈونیشیا میں ملک کی جگ ہنسائی کرائی گئی تو خراب پرفارمنس کا ذمہ عمران خان کی حکومت ایڈوانس میں لینے کے لئے تیار رہے، جو اس حکومت سے لگائو رکھنے والوں کیلئے پہلا دھچکا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین