ڈالر کی اڑان!

October 23, 2021

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ہی نہیں، یورو، پونڈ سمیت دنیا کی ہر کرنسی کے مقابلے میں گھٹ رہی ہے اور ماہرین بتاتے ہیں کہ کرنسی کی قدر میں معمولی کمی بھی ملکی قرضوں میں بھاری اضافے اور اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مشیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کر لیا ہے۔ ڈالر کی قدر 174روپے سے تجاوز کرنے کے تناظر میں کمیٹی کا یہ موقف وزن رکھتا ہے کہ مہنگائی کے باعث حالات خراب ہورہے ہیں۔ جمعرات کے روز چیئرمین مجلس قائمہ طلحہ محمود کی سرکردگی میں یہ اجلاس ایسے وقت منعقد ہوا جب ایک جانب ڈالر کی قدر میں غیرمعمولی اضافے (یا دوسرے لفظوں میں روپے کی قدر میں بڑی کمی) کے باعث تجارتی برادری اور عام لوگوں میں اضطراب کی کیفیت نمایاں ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ وکلا، تاجروں اور سول سوسائٹی کے دوسرے حلقوں سے تعلق رکھنے والے بھی اپنے ردّعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ 22اکتوبر کو نماز جمعہ کے بعد کراچی، لاہور، پشاور سمیت متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں اور دھرنوں کے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے 31اکتوبر کو بڑے احتجاج کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا مانچسٹر میں دیا گیا یہ بیان چونکا دینے والا بھی ہے اور آنے والوں دنوں کے حوالے سے عام آدمی کے خدشات میں اضافے کا سبب بھی، کہ ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر کم ہونے سے اگر ’’کچھ‘‘ پاکستانیوں کو نقصان ہو رہا ہے تو سمندر پار پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کو فائدہ بھی پہنچے گا۔ پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد 90لاکھ ہے اور ان کے حالات عام پاکستانیوں کے مقابلے میں یقینی طور پر بہتر ہیں۔ اس منظر نامے میں بعض مبصرین گورنر اسٹیٹ بینک کے مذکورہ بیان سے ایسے معانی نکال رہے ہیں جن میں تشویش کے پہلو نمایاں ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے رکن سلیم مانڈوی والا نے اس بیان کو حیران کن قرار دیتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک پر پاکستانی کرنسی کی حفاظت و نگہداشت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بعض مبصرین کی رائے میں ڈالر اور پیٹرول دونوں ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہو گئے ہیں کہ ان میں سے کسی بھی چیز کی قیمت بڑھنے سے گرانی میں اضافہ ہوتا ہے صورت حال یہ ہے کہ دم تحریر ڈالر 174.11روپے کی سطح پر پہنچا ہوا ہے جبکہ سونے کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق مہنگائی بڑھنے کی وجہ صرف گلوبل مارکیٹ نہیں، لوکل مارکیٹ بھی ہے۔ دوائوں کی قیمتیں 400فیصد بڑھ گئیں۔ ان کا عالمی مارکیٹ سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ زرعی معیشت کے حامل ملک پاکستان میں جمعرات کو فی کلو چینی کے ایکس ملز ریٹ 105روپے کی آل ٹائم ریکارڈ قیمت پر پہنچ گئے۔ 16اکتوبر کو پیٹرول کے نرخوں میں 10.49روپے فی لیٹر اضافے کے بعد کے الیکٹرک نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3.45روپے اضافے کی درخواست کردی اور یکم نومبر سے گیس ٹیرف میں اضافے کے خدشات ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستانی عوام کیلئے یہ بحث بے معنی ہے کہ وطن عزیز دنیا میں مہنگائی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے یا 30نمبر پر۔ عام آدمی اس بات سے پریشان ہے کہ اس کا جینا مشکل ہوچکا ہے۔ وہ بےچینی سے منتظر ہے کہ اس پریشانی کا کوئی حل سامنے آئے۔