Squid Game

October 27, 2021

نیٹ فلکس پر آج کل ایک کورین سیریز کی دھوم مچی ہوئی ہے، نام ہے 'Squid Game'۔کہانی کچھ یوں ہے کہ کوریا کی ایک پُراسرار کمپنی ایسے لوگوں کی تلاش کا کام کرتی ہے جن کا بال بال قرضے میں جکڑا ہے اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں۔ یہ کمپنی اپنے کارندوں کے ذریعے ایسے مجبور لوگوں کا کھوج لگاتی ہے اور پھر اُنہیں اپنے جال میں پھنسا کر شہر سے دور سمندر کے راستے ایک نامعلوم مقام پر لے آتی ہے جہاں کمپنی نے عجیب و غریب طرز کی مختلف پُراسرار عمارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اِن عمارتوں کی نگرانی مخصوص لباس والے مسلح نقاب پوش افراد کرتے ہیں اور اِن سب کو ’فرنٹ مین‘ نامی شخص کنٹرول کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کمپنی اِن لوگوں کو پیشکش کرتی ہےکہ یہاں انہیں چھ مختلف کھیل کھیلنے کا موقع دیا جائے گا، ہر کھیل کے اختتام پر ہارنے والے کھلاڑی باہر ہوتے جائیں گے جبکہ جیتنے والے کھلاڑی اگلے مرحلے میں پہنچ جائیں گے۔ ہر کھیل کے لئے جیت کی ایک بھاری رقم مختص ہے، جوں جوں کھلاڑی کم ہوتے جائیں گے یہ رقم بڑھتی چلی جائے گی اور چھٹے کھیل کے اختتام پر کئی ملین ڈالر کی یہ رقم جیتنے والے کھلاڑی کو مل جائے گی۔ کھیل شروع کرنے سے پہلے کمپنی کھلاڑیوں کو ’شرائط و ضوابط‘ بتاتی ہے کہ وہ جب چاہیں یہ کھیل چھوڑ کر جا سکتے ہیں بشرطیکہ کھلاڑیوں کی اکثریت کھیل چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دے۔ شروع شروع میں کھلاڑیوں کو لگتا ہے کہ اپنی معاشی حالت سدھارنے کا یہ ایک سنہری موقع ہے چنانچہ وہ ہنسی خوشی کھیل میں حصہ لینے کی ہامی بھر لیتے ہیں مگر پہلے ہی کھیل کے دوران انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اِس کھیل میں جو جیتے گا وہی زندہ رہے گا کیونکہ ہار کا مطلب موت ہے اور انعام کی رقم اسی صورت میں بڑھے گی جب ہارنے والے کھلاڑی کھیل کے دوران مار دیے جائیں گے۔ یہاں سے اصل ڈرامہ شروع ہوتا ہے، پہلے ہی کھیل کے اختتام پر 456کھلاڑیوں میں سے 255ختم ہو جاتے ہیں اور انعامی رقم بڑھ جاتی ہے۔ اب باقی رہ جانے والے کھلاڑیوں کے پاس دو راستے بچتے ہیں، یا تو وہ کھیل چھوڑ کر خالی ہاتھ واپس گھروں کو چلے جائیں یا پھر کھیل جاری رکھیں اور کروڑوں ٖڈالر کی انعامی رقم جیتنے کی کوشش کریں مگر یہ بات انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس رقم کو پانے کے چکر میں نہ صرف اُن کی اپنی جان جا سکتی ہے بلکہ انہیں کسی دوسرے کی جان لینی بھی پڑ سکتی ہے۔ اِس تماشے کا کیا مقصد ہے، یہ کس نے شروع کیا اور اِس کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لئے آپ کو مکمل سیریز دیکھنی ہو گی۔

بظاہر اِس سیریز کا پلاٹ خاصا دور ازکار لگتا ہے کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسی کسی کمپنی کا وجود ناممکن ہے جو یوں وسیع پیمانے پر رازداری برت کر موت کا کھیل رچائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو لیکن اصل میں یہ سیریز کوریا کے معاشی اور سماجی نظام کو بےنقاب کرتی ہے جہاں امیر اور غریب طبقے کی تفریق خاصی بڑھ چکی ہے۔ کوریا میں یہ تاثر عام ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ لوگ شادی کرنے یا بچے پیدا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور اِس کی وجہ کوریا میں مہنگا معیارِ زندگی ہے جسے برقرار رکھنا بہت مشکل ہے، انہی وجوہات کی بنا پر یہاں خودکشی کی شرح بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کوریا کی مثال اُس خوشحال آدمی جیسی ہے جس کے خرچے ایک مخصوص معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لئے گھٹائے نہیں جا سکتے اور اُس کی آمدن ایک حد سے بڑھ نہیں پاتی اور یوں وہ خوشحال ہونے کے باوجود جنجال سے نہیں نکل پاتا لیکن میرا مقصد کوریا کے معاشی نظام پر ماتم کرنا نہیں، انسان پر ماتم کرنا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان وہ واحد جاندار ہے جسے اِس دنیا میں زندہ رہنے کے لئے پیسہ کمانا پڑتا ہے، کوئی بھی دوسرا جاندار اُن جھمیلوں میں نہیں پڑتا جن میں انسان نے خود کو ڈال رکھا ہے لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ جانوروں کو بہرحال اپنی بقا کے لئے دوسرے جانوروں کا شکار کرنا پڑتا ہے۔ انسان کا معاملہ مگر مختلف ہونا چاہئے۔ انسان کے پاس عقل ہے، شعور ہے، علم و دانش ہے، اِس دنیا میں رہنے کے لئے اُس نے اخلاقیات اور قانون جیسے خوش کُن تصورات تشکیل دیے ہیں اور اِن تصورات کی بنیاد پر مختلف نظام وضع کیے ہیں جن میں مساوات، انصاف اور آزادی جیسے پُر کشش اصولوں کا سبق پڑھایا گیا ہے لیکن Squid Gameکو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انسانی تہذیب کی یہ تمام بنیادیں کھوکھلی ہیں اور انسان بھی اپنی بقا کے لئے وہی کچھ کرنے پر مجبور ہے جو جانور کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر اِس سرمایہ دارانہ نظام نے پوری کردی ہے جو Survival of the Fittestکے اصول پر کھڑا ہے اور جس میں Cut Throat Competitionکے بعد ہی طے کیا جاتا ہے کہ کون سا انسان ’کامیاب‘ ہے اور کون سا ’ناکام‘ جس نظام میں کسی دوسرے کا گلا کاٹ کر آگے بڑھنے کو (محاورتاً ہی سہی) جائز سمجھا جائے، اُس نظام میں انسانوں کو حقیقت میں بھی ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر ہی اپنی بقا کو یقینی بنانا پڑتا ہے۔ Squid Gameمیں بھی یہی دکھایا گیا ہے۔

ایک سوال اکثر میرے دماغ میں کلبلاتا ہے کہ انسان نے سائنسی ترقی تو خوب کر لی، پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرنے سے لے کر مریخ پر لینڈ کرنے تک کا سفرلاکھوں برس کا ہی سہی مگر معمولی نہیں لیکن کیا انسان نے سماجی اور اخلاقی اعتبار سے بھی اِسی سرعت کے ساتھ ترقی کی ہے؟ لاکھوں برس میں عقل و دانش کے مختلف مدارج طے کرنے کے بعد آج بھی انسانی جبلت وہی ہے جو غار میں رہنے والے انسان کی تھی جسے اپنی بقا کے لئے جانوروں کا شکار کرنا پڑتا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ آج انسان غار میں نہیں رہتا، پینٹ ہاؤس میں رہتا ہے اور پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے کی بجائے سوٹ اور ٹائی پہنتا ہے لیکن وقت آنے پر اُس کی وہی حیوانی جبلت بیدار ہو جاتی ہےجس میں وہ اپنے کنبے کی بقا کی خاطر کسی دوسرے کا گلا کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانوں میں صرف یہی حیوانی صفت پائی جاتی ہے، دنیا میں بے شمار انسان ایسے گزرے ہیں جنہوں نے دوسرے انسانوں کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی ہے۔مگر اصل المیہ وہی ہے جس کی طرف Squid Gameنے اشارہ کیا ہے کہ انسانوں کا بنایا ہوا یہ سرمایہ داری نظام ایسی نا انصافی کو جنم دے رہا ہے جس میں ارب پتی لوگ اپنی عیاشیوں کے لئے اچھوتے تجربات کر رہے ہیں اور غربت میں پسے ہوئے لوگ اُن کے نزدیک کیڑے مکوڑوں جیسے ہیں جنہیں ایسے تجربات میں استعمال کرکے تلف کیا جا سکتا ہے۔ لاکھوں برس میں بھی انسان اِس نا انصافی کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ ’بےشک انسان خسارے میں ہے‘۔