یوم تاسیس سے یوم سیاہ تک

October 28, 2021

کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے اپنے زور بازو سے یہ خطہ جسے ہم آزادی کا بیس کیمپ کہتے ہیں آزاد کروا کر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی، یوں غازی ملت آزاد کشمیر کے پہلے بانی صدر منتخب ہوئے اس عزم کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی گئی کہ بقیہ کشمیر کو مزید جدوجہد کرکے بھارت کے چنگل سے آزاد کروائیں گے، ہمارے بزرگوں نے اس عظیم مشن کی بنیاد رکھی تھی کہ کشمیر کی حتمی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، ابھی بزرگوں کے عزم کو چند دن ہی گزرے تھے یعنی کہ 24 اکتوبر کے بعد تین روز ہی گزرے تھے کہ بھارت نے طاقت کے زور پر مقبوضہ وادی میں جبری فوجیں اتار کر قبضہ جما لیا، وہ دن اور آج کا دن کتنی دہائیاں گزر گئیں ،مقبوضہ کشمیر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، تحریک آزادی کشمیر میں بھی اتار چڑھائو آتے رہے تمام تر ہتھکنڈوں، طاقت کے استعمال، کورونا لاک ڈائون کے ساتھ ساتھ کرفیو سمیت پیلٹس گن کا استعمال کیا جاتا رہا لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے غیور عوام نے آج تک آزادی سے کم قیمت پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہادتیں بڑھتی رہیں باالخصوص لیڈرشپ کی شہادتوں پر نہ صرف تحریک آزادی کشمیر میں مزید تیزی آتی رہی بلکہ نوجوان مزید جذبہ آزادی سے سرشار ہو کر ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے، شہید کشمیر مقبول بٹ شہید، پروفیسر افضل گورو، برہان وانی اور حال ہی میں بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کی شہادت کے بعد بھی آزادی کی جدوجہد میں تیزی دیکھنے کو ملی، حریت لیڈر شپ سید شبیر شاہ، عبدالغنی بٹ، یٰسین ملک سمیت دیگر قیادت کی تمام عمر آزادی کی جدوجہد میں گزر گئی انہوں نے زندگی کو آزادی کے حصول کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ یٰسین ملک جن کی پاکستانی خاتون مشال ملک سے شادی کو ایک دھائی سے زائد کا وقت ہو گیا ، انہیں اپنی بیٹی کو دیکھنا ہی نصیب نہ ہوا، مسلسل اور بیماری کی حالت میں پابند سلاسل ہیں، ایسی مثالیں نوجوانوں کو مزید حوصلہ دیتی ہیں جب بھی آزادی کی تحریک میں تیزی آئی تو برطانیہ، یورپ، امریکہ میں بھی مسلسل مظاہرے اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے سمیت یہاں کی لیڈر شپ ،ایم پیز، ہائوس آف لارڈز کے ممبران کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے مختلف تنظیمیں ،آرگنائزیشنز دن رات اپنے کاموں اور لابنگ میں مصروف ہیں ، یہاں کی مین سٹریم پارٹیاں لیبر ، حکمران کنزرویٹو، ٹوری، لب ڈیم سمیت دیگر نے بھی کشمیر گروپس یا فرینڈز آف کشمیر کے نام سے پلیٹ فورمز بنا رکھے ہیں، درحقیقت برطانیہ وہ واحد ملک ہے جہاں سے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کسی نہ کسی صورت زندہ رکھا ہوا ہے، آگہی مہم اس قدر اجاگر ہو چکی ہے کہ مردم شماری اور دیگر رجسٹریشن میں بطور کشمیری اب آپ اپنے آپ کو لکھ سکتے ہیں ،اپنی شناخت ظاہر کرنا بھی کسی حد تک بڑی اچیومنٹ ہے، یوم تاسیس سے یوم سیاہ تک ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، بھارتی ردعمل کا دورانیہ اس قدر طویل ہو جائے گا سوچا نہ تھا،یوم سیاہ کے روز بھی لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بیس کیمپ کے صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی قیادت میں ہوا اور 10 ڈائوننگ سٹریٹ پر یاداشت پیش ہوئی ،اس امید اور یقین کے ساتھ کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا، کب انہیں بھی آزاد فضائوں میں سانس لینے کا موقع ملے گا، یہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فورم پر طویل حل طلب مسئلہ رہ گیا ہے، کوئی معجزہ رونما ہو ،عالمی برادری ایک آواز ہو کر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ریفرنڈم کا حق دے تاکہ وہ بھی آزاد ہو سکیں۔