ملتان میں مسلم لیگ ن دو دھڑوں میں تقسیم

October 28, 2021

ملتان میں مہنگائی کے خلاف احتجاج پر بھی مسلم لیگ ن متحد نہ ہو سکی اور اس کے دو دھڑوںنے شہر کی دو مختلف جگہوں پر علیحدہ علیحدہ مظاہرے کئے ،جس پر سنجیدہ مسلم لیگی حلقوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے منتشر مظاہروں سے حکومت پر کیا دباؤ بڑھے گا اور مہنگائی کے حوالے سے عوام کو جو ریلیف ملنا چاہیے، وہ ایسے نیم دلانہ مظاہروں سے تو کسی صورت نہیں مل سکتا۔

یاد رہے کہ ملتان میں اتوار کو مظاہروں کا شیڈول دیا گیا تھا اور توقع یہی تھی کہ مسلم لیگ ن متحد ہو کر ایک بڑا مظاہرہ کرے گی ،مگر اس کے برعکس ایک طرف سابق ایم این اے عبدالغفار ڈوگر اور سابق وفاقی وزیر جاوید علی شاہ نے اپنا علیحدہ مظاہرہ کیا ،جس میں ان کے حلقوں سے آنے والے کارکنوں نے شرکت کی، دوسرامظاہرہ حسین آگاہی چوک میں ہوا ،جس کی قیادت سابق ایم این اے شیخ طارق رشید ، سابق صوبائی وزیر عبدالوحید آرائیں، آصف رفیق رجوانہ ،مئیرملتان نویدالحق آرائیں،ملک انور سمیت دیگر رہنماؤں نے کی ،جس میں لیگی کارکنوں وعہدے داروں نے شرکت کی۔

یہ دونوں مظاہرے اگر یکجا کر لئے جاتے، تو ایک بڑا احتجاج سامنے آ سکتا تھا، مگر اس تقسیم کی وجہ سے ان مظاہروں کا کوئی اتنا بڑا اثر نہیں ہوا اور معاملہ رات گئی بات گئی کی طرح ختم ہوگیا ،قابل ذکربات یہ ہے کہ ان دونوں مظاہروں میں بھی سینئرمسلم لیگی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کو دعوت نہیں دی گئی ،حالانکہ وہ ملتان میں موجود تھے اور مختلف تقریبات میں بھی نظر آتے رہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ملتان دو دھڑوں میں منقسم ہے اور اس کی اوپر کی شاخیں بھی شاید شہباز شریف اور مریم نواز کے ذریعے نیچے تک آ رہی ہیں۔

اس سے یہ بات بھی صاف ظاہر ہوچکی ہےکہ پچھلے دنوں جب حمزہ شہباز ملتان آئے تھے تو ان کا خاطر خواہ استقبال نہیں ہوا تھا اور اس وقت بھی کہا یہی جا رہا تھا کہ کسی خاص وجہ سے ان کے استقبال کو محدود رکھا گیا ہے، اس کا اشارہ کس نے دیا تھا اور اس کے پیچھے کون تھا، اس کا عقدہ تو حل نہیں ہو سکا، مگر مہنگائی کے احتجاج پر مسلم لیگ ن کے دو واضح دھڑے سامنے آنے کے بعد یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ مسلم لیگ ن میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے، یہ صورتحال رہی تو آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن ملتان میں ایک بارپھر بڑی شکست سے دوچار ہو سکتی ہے۔

سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کا یوں تقسیم ہو جانا پارٹی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے،مگریوں لگتا ہے کہ بالائی سطح پر بھی جانتے بوجھتے ہوئے حقائق سے نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ ہفتہ زیادہ وقت ملتان میں گزارا ، ان کا کہنا ہے کہ جو حکومت بڑے بڑے مسائل پر پارلیمنٹ کے اندربات نہیںکرتی اور نہ کرنے دیتی ہے ،اس حکومت کے لئے مہنگائی اور عوام کی معاشی بدحالی کا موضوع کیا اہمیت رکھتا ہے۔

اس لئے اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف سٹرکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب پیپلزپارٹی بھی اس حوالے سے عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی ،بلاول بھٹو نے بالکل واضح کردیا ہے کہ پیپلزپارٹی مہنگائی کے ایشو پر خاموش نہیں رہے گی اور اس نااہل حکومت کے خلاف آواز اٹھائے گی ،جس کا ایک ایک دن عوام پر بھاری پڑرہا ہے ،ادھر جماعت اسلامی نے بھی مہنگائی کے مسئلہ پر سولو فلائٹ کے طور پر احتجاج کا اعلان کردیا ہے اور اب منظر نامہ یہ بن چکا ہے کہ ایک طرف پی ڈی ایم کی جماعتیں ہیں۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی اپنا اپنا علیحدہ احتجاج شروع کرنے جارہی ہیں ، کیا اس سے صحیح معنوںمیں حکومت پر دباؤ پڑ سکے گا ؟ کیا ایسے احتجاجوں سے حکومت متاثرہوگی یا گھر چلی جائے گی ؟ جو ایسا سوچتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ،کیونکہ اس سے بھی بڑے بڑے احتجاج یہ حکومت ماضی میں دیکھ چکی ہے ،جب تک اپوزیشن کی کوئی اجتماعی تحریک اس حکومت کے لئے چیلنج نہیں بنتی ،اس وقت تک اس قسم کے ہلکے پھلکے احتجاجوں سے حکومت کو دباؤ میں نہیںلایا جاسکتا ،البتہ یہ ممکن ہے کہ ان مظاہروں کی وجہ سے حکومت پر ایک خاصدباؤبڑھے اور وہ اس مہنگائی کو کم کرنے کےلئے سنجیدہ کوششیں کرنے پر تیارہوجائے جس نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔

ادھر سپریم کورٹ کے سخت نوٹس کے بعد جس میں پنجاب حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس لینے کی تنبیہ بھی کی گئی تھی، پنجاب حکومت نے عجلت میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اورملتان سمیت پنجاب کے تقریبا ہر علاقے میں بلدیاتی ادارے بحال ہو چکے ہیں اور بلدیاتی نمائندوں نے ان کا چارج سنبھال لیا ہے، عدالتی دباؤ میں کئےجانے والے اس فیصلے میں پنجاب حکومت کتنی سنجیدہ ہے اور بلدیاتی عہدیداروں کو کتنے اختیارات اور فنڈز دے گی۔

اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا، لیکن لگتا یہی ہے کہ ان اداروں کی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے لیے لولے لنگڑے اقدامات کے ذریعے وقت گزارنے کی کوشش کی جائے گی، کیونکہ اگر ان نمائندوں کو بھی اختیارات اور فنڈز دیئے گئے، تو یہ نہ صرف آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بلکہ عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوں گے، کیونکہ ان اداروں میں اکثریت مسلم لیگ ن کے عہدیداروں کی ہے اور ان کی ہمدردیاں اپنی جماعت سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

اگر انہیں فنڈزملتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں ترقیاتی کام کرانے میں کامیاب رہتے ہیں،تو اس کا لامحالہ فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوگا ،ظاہر ہے کہ حکومت کسی صورت نہیں چاہے گی کہ بلدیاتی ادارے ایک متوازی حکومت بن کر چلیں اور ان کے ذریعے وہ کام بھی ہوں ، جو حکومت اپنے ارکان اسمبلی کے ذریعے کراناچاہتی ہے، تاہم یہ اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ بلدیاتی سٹرکچر میںبلدیاتی ادارے مختلف مدات میں اپنے فنڈز پیداکرسکتے ہیں اور اپنے وسائل کی بنیاد پر وہ ترقیاتی کاموں کا جال بھی بچھاسکتے ہیں۔

حکومت کی یہ کوشش ہے کہ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش کی جائے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برے معاشی حالات کی وجہ سے حکومت سخت دباؤ میںہے ،اور اس پر مستعفی ہونے اور نئے عام انتخابات کرانے کا مسلسل دباؤ جاری ہے،اس بات کا عندیہ خود وزیراعظم عمران خان بھی دے چکے ہیں کہ حکومت اگلے سال کے اوائل میں بلدیاتی انتخابات کرائے گی۔