قدرتی آفات اور بندگی کے تقاضے

November 19, 2021

مولانا نعمان نعیم

اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہے، جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانۂ حیات چل رہا ہے، ان کا وضع کرنے والا اللہ ہی ہے، انسان تو بس ان کا علم ہی حاصل کرسکتا ہے۔ زندگی گزارنے کے نتیجے میں انسان طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتا ہے، بعض اخلاقی برائیاں ایسی ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتی ہیں، یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ یک لخت نیست ونابود نہیں کرتا ،بلکہ پہلے وارننگ دیتا ہے، تاکہ انسان سنبھل جائے اور اپنا طرز زندگی درست کرلے۔

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی (باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔ (سورۂ سجدہ: آیت: ۳۱) بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر اور فسق کی پاداش میں دیا جائے گا، اس کے مقابلے میں عذاب ادنیٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں، مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات،ناکامیاں وغیرہ۔

اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ بڑے عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں، اور اس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ بالکل آرام اور سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال یہ آفات وبلیات، طوفان وسیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ طوفان اور سیلاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے، مگر ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتّہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔

قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی آفات، آندھی، طوفان،زلزلہ، وبا، اور سیلاب کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالی کی ناراضی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے اللہ کا طے شدہ عذاب قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا ،ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح پہلی امتوں پر کی تھی۔(جامع ترمذی)

حضرت حذیفہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔(ترمذی شریف )

حضرت صدیق اکبر ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جب لوگ معاشرے میں منکرات یعنی نافرمانی کے اعمال کو دیکھیں اوراصلاح کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر اللہ کا عذاب آجائے۔(سنن ابو داؤد )

حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہوگا، مردوں کے سروں پر گانے کے آلات بج رہے ہوں گے، اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی کہ اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندر اور خنزیرکی شکل میں مسخ کر دے گا۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرماں بردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلے کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچ اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شراب پی جانے لگے، امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگے۔(جامع ترمذی )

اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالی کی ناراضی کا اظہار ہوں گی،اس لیے سیلاب ، آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے ،لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور انہیں دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس پر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سزا تو مجرموں کو ہوتی ہے، جو لوگ جرائم میں شریک نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے اور معصوم بچوں اور عورتوں کا کیا جرم ہے کہ وہ بھی بہت بڑی تعداد میں قدرتی آفت کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس کی حقیقت نبی اکرم ﷺ نے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : جب کسی قوم پر اللہ کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں،البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔(صحیح بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میری امت کا ایک شخص حرم مکہ میں پناہ لیے ہوگا اور میری امت کا ہی ایک لشکر اس کے تعاقب میں مکہ مکرمہ کی طرف یلغار کرے گا، لیکن ابھی وہ بیداء کے مقام پر ہوں گے کہ سب لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ ان میں بہت سے لوگ غیر متعلق بھی ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے ، جو اپنی مرضی کے ساتھ شریک ہوں گے، کچھ مجبور بھی ہوں گے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ساتھ ہوں گے، اور ابن السبیل یعنی راہ گیر بھی ہوں گے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، لیکن جب زمین پھٹے گی تو سب لوگ اس میں دھنس جائیں گے، البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔(صحیح مسلم )

حضرت زینب بنت جحش ؓسے روایت ہے کہ ایک موقع پر رسول اکرمﷺ نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو آپ نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا؟ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں جب خباثتوں کی کثرت ہو جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔ (صحیح بخاری) حضرت ام سلمہؓ سے بھی اسی نوعیت کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ جو شخص نافرمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوگا، کیا اس پر بھی عذاب آئے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! دنیا کے عذاب میں سب ایک ساتھ ہوں گے، پھر قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔(صحیح مسلم )

یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی نبی اکرم ﷺ وضاحت فرمارہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار ، سزا اور تنبیہ ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

جب انسان اللہ کی جانب سے حرام کردہ چیزوں کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے۔ جب اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔ جب اپنی نافرمانی اور سرکشی کو اپنی دین داری و خوبی جاننے لگتا ہے۔ جب اپنی بدکرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے۔ جب معاشرے کے کمزوروں کا خون چوسنا اور کمزور و ضعیف لوگوں کے مال کو ہڑپ کرنا اپنا فرض منصبی جاننے لگتا ہے۔

جب ایمان کی قدریں کمزور اور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔ جب نیکی کے بجائے گناہ اور اطاعت کے بجائے معصیت اپنے سائے دراز کرنے لگتی ہے اور جب عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا غضب قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔ قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

قرآ ن و سنت کی تعلیم یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم توبہ و استغفار کریں،اپنے جرائم اور بداعمالیوں کو یاد کریں، اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔ یہ اعمال اللہ سے ہمارے قرب کاذریعہ اور اس کی رضا کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔

عرش کے سائے میں …!

رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں ہوں گی، اسے اللہ تعالیٰ اس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، ایک تو ناگواری (سخت سردی ،نیند کے غلبے) کی حالت میں وضو کرنا، دوسری چیز اندھیروں میں مسجد کی طرف جانا اور تیسری بھوکے کو کھانا کھلانا‘‘۔(مستدرک حاکم)