انتہا پسندی کا ’’سونامی‘‘

December 08, 2021

میں نے پاکستان بنتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔ بزرگوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ضرور ہے، ان لازوال قربانیوں کے بارے میں جس کے نتیجے میں ہمیں یہ ملک ملا۔ سوچتا ہوں کہ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے شاعر مشرق علامہ اقبال کے تصور میں بھی اس کی یہ تصویر نہیں ہو گی جس کی لپیٹ میں اب پورا ملک آچکا ہے۔ سری لنکن فیکٹری منیجر کو لگنے والی آگ دراصل ہمارے لئے کسی ’’سونامی‘‘ وارننگ سے کم نہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی آخری ہے البتہ ریاست کے پاس اب وقت کم ہے۔

ابھی تو ہم مشال خان کے واقعہ کو ہی نہیں بھول پائے۔ یہ مہینہ تو ویسے بھی ہمیں 2014کے بعد سے اپنے بچوں کی یاد دلاتا ہے۔ جنہیں آرمی پبلک اسکول میں بے دردی سے اس وقت شہید کیاگیاجب وہ اپنی کلاسوں میں شاید علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کے ’’خواب‘‘ اور اس کی تعبیر کے بارے میں پڑھ رہے ہوں گے مگر انتہا پسند کامیاب رہے کیونکہ آج ہم ’’امن‘‘ کے نام پر انہی سے گفتگو کر رہے ہیں۔

انہی کی Terms پر۔ابھی تو ہم 2009میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں پوری کرکٹ دنیا کے پاکستان نہ آنے کے فیصلوں سے پوری طرح باہر نہیں نکل پائے کہ ایک بار پھر اسی دوست ملک کے شہری کو زندہ جلا دیا۔ ہاں کچھ لوگوں میں خوف خدا ہوتا ہے۔

انسانیت بھی ہوتی ہے۔ اس وقت اس بس کے ڈرائیور نے اگر ان کھلاڑیوں کو نہ بچایا ہوتا تو شاید ہم پر آج تک پابندی لگی ہوتی۔ اس بار بھی اس ہجوم میں دو لوگ ایسے تھے۔ جنہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر کم از کم کوشش تو کی۔ ایک نے اس کی جان بچانے کی تو دوسرے نے ہاتھ جوڑ کر لوگوں سے کہا ’’مار تو دیا ہے آگ کیوں لگاتے ہو۔‘‘

آج ہماری سوچ بہت محدود ہو چکی ہے۔ اب تو سوچنے کا پروسس ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو اپنے کالجوں اور جامعات میں جا کر طالبعلموں سے گفتگو کر کے دیکھ لیں۔ کسی سیمینار یا کانفرنس میں شرکت کر کے دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ایسا تونہیں تھا پاکستان، ہم ایک معتدل معاشرہ تھے جہاں گفتگو دلیل سے ہوتی تھی، مخالف کی بات سننے کا حوصلہ بھی تھا اور برداشت بھی۔

ایسا نہیں کہ اس وقت لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے تھے مگر کم از کم بچانے والے لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی تھی۔یقین جانیے ہم اتنے تقسیم نہیں تھے کہ ایک دوسرے کو کسی کے کہنے پر ’’کافر‘‘ قرار دے کر قتل کر دیں۔ 2014 میں ہم نے قومی ایکشن پلان بنایا مگر پھر ہم مصلحتوں کا شکار ہو گئے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس پر 50فیصد بھی عمل در آمد ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

بات صرف قانون کی حکمرانی کی نہیں، فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا اس ملک میں رٹ، ریاست کی ہو گی یا غیر ریاستی مسلح گروہوں کی۔ آج آپ کی درس گاہوں میں کہیں نہ کہیں کسی انداز میں وہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے جو کسی بھی انسان کو کسی بھی وقت دہشت گرد بنا سکتی ہے۔ نہ ہمارا پیارا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے نہ اسلامی تعلیمات۔ نہ جانے ہم نےان جانے میں کتنے بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔

میں جس منی پاکستان میں رہتا ہوں وہاں سبین محمود بھی رہتی تھی اور پروین رحمان بھی دونوں ہی مار دی گئیں قاتل اب بھی زندہ ہیں۔ تصور کریں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے بننے والے اس ملک میں زبان، مذہب، سیاست اور ریاست کے نام پر نہ جانے کتنے بھائیوں، بہنوں، ماؤں اور بچوں کو ہم نے اسی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا اور نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ اور گل ہونگے۔ہجوم کی اپنی نفسیات ہوتی ہے بس تیلی لگانے کی دیر ہوتی ہے۔ باقی کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی بار ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ بس آپ ایک پتھر پھینک دیں کسی بھی جلوس پر اور پھر تماشہ دیکھیں۔ اگر ہمیں تلاش کرنا ہے تو اس تیلی لگانے والے کو، پتھر پھینکنے والے کو۔

پچھلے پچاس برسوں میں ہمارے اردگرد خطے میں مجموعی طور پر انتہا پسندی بڑھی ہے ایرانی انقلاب کو لے لیں یا افغان جہاد کو یا بھارت میں مودی سرکار کو۔ سری لنکا نے خود ایک بہت بڑی لڑائی لڑئی جس کے اثرات اب بھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے۔ ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ 1977کی تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگ گیا اورہم ایک بے یقینی کاشکار ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ایران اور افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں کے اثرات یہاں بھی محسوس کیے جانے لگے اور ہم ریاستی سطح پر اسے روکنا تو دور کی بات ان تضادات کا حصہ بنتے چلے گئے۔

ہم نے اپنی سر زمین کو افغان جہاد کا بیس کیمپ بنا لیا۔ پچاس لاکھ لوگوں کی میزبانی بھی کی اور پچاس ہزار غیر ملکی مجاہدین کو جن کو ان کے اپنے ملکوں نے لینے سے انکار کر دیا ہم نے پناہ دے دی۔ بات یہیں پر رک جاتی تو بھی غنیمت تھا مگر پھر ریاستی سطح پر غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کا پورا کلچر ہی تباہ ہو گیا۔

پھر دوسری افغان جنگ آئی اور اب کی بار دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جو لہر آئی توالقاعدہ اور تحریک طالبان جیسے گروپوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کر دی۔ دیر تو خیر ہو چکی تھی مگر پھر بھی جب ریاست نے فیصلہ کیا تو ہم نے دیکھا سوات سے مالا کنڈ اور جنوبی وزیرستان سے شمالی وزیرستان اور کراچی تک بڑا آپریشن ہوا، ابھی اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہی ہوئے تھے کہ APS جیسا واقعہ ہو گیا۔ ہم نے پھر سنبھلنے کی کوشش کی، جیسا کہ شروع میں لکھا قومی ایکشن پلان بھی بنا۔

ابھی اس کے مکمل طور پر اثرات سامنے نہیں آئے تھے کہ ایک بار پھر ہم نے ریاستی سطح پر انتہا پسند گروپس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا یہاں تک ہواکہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بھی بن گئے اور 2018 آگیا۔

دو سال بعد ایک اور الیکشن ہونے جا رہا ہے اور اس چیز کا قوی امکان ہے کہ ایک بار پھر ایسے گروپس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لئے۔ یاد رکھیں حبیب جالب نے ایک بار کہا تھا۔

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا

انتہا پسندی کے جو اثرات پنجاب اور KP میں نظر آرہے ہیں، انہیں روکا نہ گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔