کراچی، داخلے کیلئے ڈومیسائل کی شرط

December 08, 2021

آئے روز اسمبلیوں میں بل لانا اور پھر چابکدستی سے بلاجمہوری روایت کے پاس کرانےپر اگرچہ معتوب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بلکہ سنگین طرزعمل پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نےاختیارکررکھا ہے،جہاں وہ بعض معاملات میں اگرچہ کسی بل کا توسہارالے لیتی ہے لیکن اکثروہ ایسے قواعد وضوابط عوام کیلئے لازم قرار دے دیتی ہے، جن کا نہ صرف یہ کہ کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوتا بلکہ وہ قانون سے بھی بالا ہوتے ہیں۔ بنابریں وفاق کی علامت قراردینے والی پیپلزپارٹی کی حکومت اس قسم کے قواعدلاگو کرنے سے بھی ذرہ برابر نہیںہچکچاتی جس سے اس کے اپنے سلوگن یعنیــ’’ وفاق کی علامت ‘‘پرزد پڑتی ہو۔اس کی حالیہ مثال کراچی کے کالجوں میں انٹرفرسٹ ایئر میں داخلوں کیلئے ڈومیسائل کی شرط لازمی قراردینا ہے،وہ جماعت جس کا دعویٰ ہےکہ وہ لسانیت اور علاقائیت پر یقین نہیںرکھتی، جہاں بلدیاتی قوانین میں اس کی حالیہ ترمیم کو لسانیت کاآئینہ دار قراردیا جارہاہے وہاں، داخلوں کیلئے ڈومیسائل کی شرط کو کراچی میں برسوں سے مقیم دوسرے صوبوں کے بچوںپر تعلیم کے دروازے بند کرنے کوبھی سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق’’ انٹر سال اول میں داخلوں کو مشکل اور پیچیدہ بنا کر طلبہ اور والدین کوعذاب میں مبتلا کردیا گیاہے، انٹر سال اول میں داخلے کے وقت سندھ کی تاریخ میں پہلی بارڈومیسائل، پی آر سی، کورونا ویکسین سرٹیفکیٹ اور فارم بی بھی مانگے گئے ہیں گویاطالبعلم سرکاری کالج میں داخلے کی بجائے سرکاری ملازمت مانگ رہا ہو۔ داخلے کے لئے نویں جماعت کی امتحانی سلپ کے ساتھ پانچویں اور آٹھویں کلاس کا سرٹیفکیٹ بھی مانگا گیا ہے۔

مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام پر ڈومیسائل، پی آر سی اور فارم بی بنوانے سے والدین پر ایک غیر ضروری مالی بوجھ بڑھ گیا ہے کیوں کہ کالج پرنسپلز داخلے کے وقت یہ کاغذات مانگ رہے ہیں۔ جب کہ یہ دستاویزات بنانے والوں کی چاندی ہوگئی ہے اور ایجنٹوں کے مزے ہیں، روز صبح سویرے طلبہ کو ڈومیسائل کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں لگنا پڑ رہا ہے‘‘۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وہ طلبہ تو پھر بھی ڈومیسائل رشوت وغیر ہ دے کر بنواہی لیں گے جن کے والدین کے شناختی کارڈ پر سنگل یعنی صرف کراچی کا ایڈریس ہے لیکن ڈومیسائل کا حصول اُن طلبہ کیلئے ناممکن بنادیا گیا ہے جن کے والدین کے شناختی کارڈ پر ڈبل ایڈریس ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں دیگر صوبوں اورعلاقوں کےلوگ کثیر تعداد میں برسوں سے آباد ہیں لیکن اُن کے شناختی کارڈپر کراچی کے پتے کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں کے پتے بھی درج ہیں۔سند ھ حکومت کے نئے قواعد کے مطابق ایسے شہری جن کے شناختی کارڈ پر ڈبل ایڈریس ہوں وہ کراچی کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے اہل نہیں، اس پابندی سے صاف عیاں ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی میں رہنے والے دوسرے صوبوں کے بچوں پر کراچی کے تعلیمی اداروں کے دروازے بند کردیےہیں۔ اب تک سندھ سمیت پورے پاکستان میں ڈومیسائل ’’دی پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951کے سیکشن 17اور رول 23کے تحت درکار شرائط و ضوابط کے تحت تیار کیا جاتارہا ہے، ان قواعدکے مطابق جو شہری ایک سال سے کسی شہر میں رہ رہا ہو وہ ڈومیسائل اور دوسال رہنے پر وہ پی آر سی حاصل کرنے کا اہل وحقدار ہے۔

پی پی کی موجودہ حکومت کے آنےسے قبل تک یہا ں سول کے ساتھ آمروں نے بھی حکمرانی کی لیکن کسی نے اس طرح دیگرصوبوں کے بچوں پر یہ قدغن نہیںلگائی۔ ناانصافی اسی پر موقوف نہیں بلکہ اگر کوئی شہری اپنے شناختی کارڈ سے آبائی علاقے کا پتہ ختم کرنے اور ایک ایڈریس رکھنے کیلئے ’نادرا‘ سےرجوع کرتاہے تو نادرا کی جانب سے لیز مکان کے کاغذات طلب کئے جاتے ہیں۔اب جو لوگ اپنے صوبوں میں روزگارکے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے یہاںمقیم ہیں لیکن اپنا مکان نہیں رکھتے، وہ کہاںجائیں گے ۔ میرے ایک کلاس فیلو ہیں جنہوں نے میرے ساتھ کراچی کے بلدیہ اسکول سے پرائمری پاس کیا، 1978میں کراچی سےمیٹرک کے بعد کراچی ہی سے ایم اے، ایل ایل بی کیا،اُس کے پاس 1982کا کراچی کابنا ڈومیسائل بھی ہے لیکن شناختی کارڈپرڈبل ایڈریس ہے۔ اب ذاتی مکان نہ ہونےکی وجہ سے ’محکمہ نادرا‘ اُس کا پتہ سنگل کرنے سے انکاری ہے۔ اس طرح کراچی میں رہائش کی 50سالہ تعلیمی ودیگر دستاویزات ہونے کے باوجودمحض ڈبل ایڈریس کی وجہ سے اس کے بچے کاکراچی کا ڈومیسائل نہیں بن رہا۔سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ داخلے کیلئے ڈومیسائل کی شرط کیسے پوری کرے۔کیسی مضحکہ خیزصورتحال ہے کہ جو لوگ اقتدارکیلئے طاقتوروں کی نظرمیں خود کو محب وطن ظاہرکرنے کیلئے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں، اُن کی جماعت اقتدارکی غلام گردشوںمیں پہنچ کر دیگرصوبوں کے لوگ ’’نہ کھپے‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنادیتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)