ایف بی آر کا حالِ زار

January 18, 2022

ملک کے سرکاری محکمے کس طرح چل رہے ہیں، اِس کی ایک نمائندہ مثال ایک بیاسی سالہ بزرگ شہری کو اپنے ٹیلی فون اور موبائل فون کے ٹیکس ری فنڈ کی محض دو ہزارتین سو تینتیس روپے کی معمولی رقم کی واپسی کے لیے تقریباً سوا سال کی جدوجہد کی شکل میں سامنے آئی ہے جس میں ایف بی آر میں متعدد درخواستوں کے علاوہ محتسب کے دفتر اور صدر مملکت تک سے مسئلہ حل کرانے کی خاطر رابطے شامل ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عبدالحمید خان نامی اس بزرگ شہری سے معذرت کی ہے اور وفاقی بورڈ آف ریونیو کی سخت گرفت کرتے ہوئے کیس میں ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف تعزیری کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جب ایف بی آر نے توثیقی دستاویز پر اعتراض کرکے رقم کی واپسی سے انکار کردیا تو شکایت کنندہ نے وفاقی ٹیکس محتسب سے رابطہ کیا لیکن ایف بی آر نے وفاقی محتسب کے حکم کے خلاف صدر مملکت سے رجوع کرلیا۔ ایوانِ صدر نے یہ کیس حکومت کے ایک قانونی مشیر کے پاس بھیجا جنہوں نے محتسب کے فیصلے کو درست قرار دیا جس کے بعد صدر نے ایف بی آر کی درخواست مسترد کردی اور یوں بزرگ شہری کی مہم جوئی کامیابی سے ہم کنار ہوئی لیکن کیا یہ ایک عبدالحمید خان ہی کا معاملہ تھا؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں، ہمارے سرکاری محکمے برسوں سے اسی طرح چل رہے ہیں، فرض شناسی کے فقدان نے پوری سرکاری مشینری کو شہریوں کے لیے عقوبت خانہ بناکر رکھ دیا ہے۔ فون کے جن بلوں کی تصدیق بلاتاخیر آن لائن کی جاسکتی تھی، اس معاملے کو سوا سال تک لٹکا کر رکھا گیا۔ ری فنڈ کے معاملے میں اکثر فائلرز کو اسی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ طرز عمل ٹیکس دینے والوں کی کھلی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ اس بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے جو اہلیت اور دیانت داری پر مبنی اچھے طرز حکمرانی کے ذریعے ہی سے ممکن ہیں۔