منی بجٹ سے متعلق خدشات کی حقیقت ؟

January 20, 2022

حکومت کی طرف سے رواں ماہ پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے منی بجٹ پر اپوزیشن کی طرف سے مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا کہ اس کے منظور ہونے سے پاکستان کی سلامتی دائو پر لگ جائے گی۔

اسی طرح بعض دیگر معاشی ماہرین اور افواہ ساز بھی اس فنانس بل کے حوالے سے عوام میں ایسی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں کہ جیسے تحریک انصاف کی حکومت ملکی مفاد کے خلاف کوئی ایسا کام کرنے جا رہی ہے جس سے ملک کی سالمیت یا ایٹمی اثاثوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے عوام کو غیر جانبداری سے اس منی بجٹ کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے آگاہ کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملک کی معاشی سمت کو درست راستے پر ڈال دیا ہے اور اب اس کی رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے ہمیں غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔

اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ برآمدات کرنے کا ریکارڈ قائم کرچکا ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانیوالی ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ماضی میں سیاسی بنیادوں پر کئے گئے معاشی فیصلوں کے باعث پاکستان پر بیرونی قرضوں کا معاشی بوجھ اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں میں اپنی ساکھ قائم رکھنے اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کےلیے منی بجٹ پاس کروانا ضروری ہو گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 22 نومبر کو پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت گزشتہ سال اپریل میں تعطل کا شکار ہونے والے پروگرام کو دوبارہ شروع کر کے آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے ان تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی تکمیل ضروری ہے جو چھ ارب ڈالرز کے 'ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی(ای ایف ایف) کے لیے درکار ہیں۔

اس سلسلے ایک ارب ڈالر کا فنڈ حاصل کرنے کے لیے باہمی اتفاق سے طے کئے گئے پانچ نکات پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 کی منظوری ضروری ہے، جس کے ذریعے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں مختلف تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنا اور بجلی کی قیمتوں میں حکومتی ڈیوٹی میں اضافہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ اپریل 2020 میں کووڈ وبا سے بچاؤ کے لیے پاکستان کو دیئے گئے تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض کا آڈٹ بھی اس پیکیج کا حصہ ہے تاکہ پاکستان میں مالیاتی ڈسپلن بہتر بنا کر مستقبل کے لیے معاشی ترقی کی بنیاد رکھی جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کردار کو واضح کرنے والے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں 1994، 1997، 2012 اور 2015 میں پہلے بھی متعدد تبدیلیاں اور ترامیم ہو چکی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ اسٹیٹ بینک کے معاملات میں مزید شفافیت پیدا کر کے حکومتی مداخلت کو کم کیا جا سکے ۔

اس حوالے سے یہ کہنا کہ اس سے پاکستان آئی ایم ایف کی کالونی بن جائے گا اور اسٹیٹ بینک کا گورنر برطانوی دور کا وائسراے بن جائے گا بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت نے منی بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچانے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پہلے ہی اپنی پوری کوشش کی ہے کہ ایسی اشیاء پر ٹیکس نہ لگایا جائے جو کم آمدنی والا طبقہ استعمال کرتا ہے۔

پاکستان کے محنت کش طبقے کو یہ اطمینا ن رکھنا چاہیے کہ منی بجٹ کےباوجود کھانے پینے کی بنیادی اشیاء آٹا، چینی ، چاول اور دالیں مہنگی نہیں ہوں گی کیونکہ یہ اشیاء سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے اور اس پر ختم ہونے والی چھوٹ میں شامل نہیں ہیں جبکہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی دالیں پہلے سے سیلز ٹیکس کے نیٹ میں ہیں ۔

علاوہ ازیں حکومت نے اپنے اراکین اسمبلی ، اتحادیوں اور سٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر بہت سی مزید ایسی اشیاء پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ واپس لے لیا ہے جن میں بیکری آئٹمز اور دیگر عام استعمال کی چیزیں شامل ہیں۔ تاہم یہاں اس بات کا ذکر بیجا نہ ہو گا کہ خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور اس کی شرح 17 فیصد کرنے سے معیشت اور پیداواری عمل پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔

خام مال کے مہنگا ہونے سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہو سکتا ہے جو روزگار کے مواقع کم کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خام مال مہنگا ہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو اس سے اسمگلنگ میں اضافہ ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ اس حوالے سے پیٹرولیم مصنوعات اور خوردنی تیل کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جیسے جیسے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح اسمگل شدہ پیٹرول اور خودرنی تیل کی مانگ اور سپلائی میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

اسی طرح منی بجٹ میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر عائد کئے گئے 17 فیصد جی ایس ٹی کو اگرچہ قابل واپسی قرار دیا گیا ہے لیکن پاکستان میں ریفنڈز کی ادائیگی میں عموماً بہت تاخیر ہو جاتی ہے ۔ اس لیے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ادویات بنانے والی کمپنیاں اس کا مالی بوجھ خود برداشت کرنے کی بجائے ان کی قیمتوں میں اضافہ کریں گی جس سے دوائیں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔

حکومت کو چاہیے کہ اس فیصلے پر مزید غوروخوض کر کے کوئی ایسا لائحہ عمل بنائے کہ ادویات کی قیمتیں بڑھنے نہ پائیں۔اس طرح کے اقدامات سے حکومت کا غیر دستاویز ی معیشت کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور پاکستان کے عوام پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔