چھینک مارنا منع ہے

January 20, 2022

یہ کہانی میں نے اپنے بچپن میں بھارت سے چھپنے والے بچوں کے مشہور رسالے ’’کھلونا‘‘ میں پڑھی تھی۔ ایک لومڑی جنگل میں بھاگی چلی جا رہی تھی اچانک وہ ایک بہت بڑے گڑھے میں گر گئی، باہر آنا مشکل ہو گیا۔ لومڑی چالاک تھی چنانچہ دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ اس گڑھے سے باہر کس طرح نکلا جائے۔ تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس گڑھے کے پاس سے ایک شیر کا گزر ہوا، اس نےپوچھا ’’بی لومڑی! تم اس گڑھے میں کیا کر رہی ہو؟‘‘ لومڑی بولی ’’بادشاہ سلامت ! اس گڑھے میں بہت سے بسکٹ اور چاکلیٹ ہیں بس وہی کھانے کے لیے چلی آئی ہوں‘‘۔ شیر نے کہا کہ بسکٹ اور چاکلیٹ مجھے بھی پسند ہیں، میں بھی کھانا چاہتا ہوں، ویسے بھی میں جنگل کا بادشاہ ہوں ان پر میرا حق فائق ہے۔ لومڑی نے کہا ’’بادشاہ سلامت! آپ بھی اس گڑھے میں آسکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ گڑھے میں آکر آپ چھینک نہیں ماریں گے، اگر آپ نے چھینک ماری تو آپ کو گڑھے سے باہر جانا ہوگا‘‘ شیر نے کہا ’’بالکل ٹھیک ہےاور گڑھے میں چھلانگ لگا دی، شیر نے لومڑی سے بسکٹ اور چاکلیٹ مانگے تو بولی ’’چند لمحے صبر کیجئے‘‘ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ایک زیبرا گڑھے کے پاس سے گزرا وہ شیر اور لومڑی کو گڑھے میں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ بولا ’’تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ لومڑی نے زیبرے کو بھی بسکٹ اور چاکلیٹ کے بارے میں بتایااور یہ بھی کہ اگر گڑھے میں آنے کے بعد چھینک ماری تو اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔ بسکٹ اور چاکلیٹ کے لالچ میں آکر زیبرے نے بھی گڑھے میں چھلانگ لگا دی۔ زیبرے کو بھی لومڑی نے چند لمحے صبر کرنے کو کہا۔ دو چار منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک بارہ سنگھا گڑھے کے پاس آگیا۔ لومڑی نے اسے بھی گڑھے میں بلا لیا، اب اس گڑھے میں لومڑی کے ساتھ ساتھ شیر، زیبرا اور بارہ سنگھا بھی موجود تھے۔ اچانک لومڑی بولی ’’اب ہم سب کچھ دیر کے لیے دم سادھ کر بیٹھ جائیں گے اور پھر مل کر بسکٹ اور چاکلیٹ کھائیں گے۔ سب دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ کسی کے چھینکنے کی آواز آئی۔ چھینک لومڑی نے ماری تھی چنانچہ شیر، زیبرے اور بارہ سنگھے نے فیصلہ کیا کہ لومڑی کو گڑھے سے باہر نکال دیا جائے۔ لومڑی بولی ’’ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی میں قانون پسند اور اصول پرست ہوں، اس لیے اپنے جرم کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں‘‘۔ شیر، زیبرے اور بارہ سنگھے نے مل کر لومڑی کو گڑھے سے باہر اچھال دیا۔گڑھے سے باہر آتے ہی لومڑی بولی ’’پیارے دوستو! تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے گڑھے سے نکال دیا اب تم تینوں یہیں پڑے رہو بسکٹوں اور چاکلیٹوں کا انتظار کرو اور جتنی جی چاہے چھینکیں مارو میں تو چلی‘‘۔

جب میں کسی بڑے آدمی کو اپنی دولت اور ذہانت کے بل پر آئین اور قانون سے کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے ہمیشہ یہ کہانی یاد آتی ہے۔ پہلی بار یہ کہانی مجھے تب یاد آئی تھی جب ایک طالع آزما اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں آئین اور قانون کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ جانوروں ہی پر کیا موقوف، اب تو انسان بھی چھینک مارنے والے کو اپنی محفل سے نکال دیتے ہیں۔ کورونا نے چھینک جیسی نعمت کو بھی خطرے کی علامت بنا دیا ہے۔ پہلے چھینک آتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ کوئی ہمیں یاد کر رہا ہے، اب چھینک آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کورونا ٹیسٹ کرائو۔

چھینک سے جڑا ایک اور واقعہ بھی میرے حافظے سے چپکا ہوا ہے۔ تب میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ محلے کی دو عورتیں میری والدہ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ ہم ذرا بازار تک جا رہی ہیں، اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ بھیج دو۔ والدہ نے مجھے ان عورتوں کے ساتھ چلتا کر دیا، وہ دونوں بازار جانے کے بجائے ایک پیر صاحب کے آستانے پر پہنچیں، اُنمیں سے ایک نے پیر صاحب سے اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوںنے بلند آواز میں چھینک ماری اور مجھے مخاطب کرکے بولے ’’جائو بیٹا! دیکھو صحن میں کچھ ہے!‘‘ میں بھاگ کر صحن میں گیا تو وہاں ایک بڑی سی ہڈی پڑی تھی۔ نلی کی جگہ کچھ کاغذ ٹھونس دیے گئے تھے، میں نے وہ ہڈی لاکر پیر صاحب کے حوالے کر دی، انہوں نے ٹھونسے گئے کاغذ نکالے اور ان دونوں عورتوں کے سامنے رکھ دیے اور بولے ’’یہ تعویز تمہارے گھر سے نکلے ہیں، اب میں ان کا توڑ کروں گا‘‘۔ توڑ کرنے کے لیے پیر صاحب نے بھاری نذرانہ وصول کیا، اصل میں قصہ یہ ہے کہ جب پیر صاحب بلند آواز میں چھینک مارتے تو صحن کے قریب بنے ہوئے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ہوا کوئی شخص کاغذوں سے بھری ہوئی ہڈی صحن میں پھینک دیتا تھا۔

پیر صاحب کی چھینک کے اس واقعے نے مجھے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندرونی نظام کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ان کا لیڈر انہیں مسلسل بیوقوف بنا رہا ہے لیکن وہ بےچارے اس کے باوجود چپ رہتے ہیں۔ سوال اٹھاتے ہیں نہ علم بغاوت بلند کرتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوال اٹھانے اور علم بغاوت بلند کرنے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہے یا گرا لیا جاتا ہے۔ ہماری سیاست کا نظام اتنا بےرحم ہے کہ اگر کوئی کارکن اپنے لیڈر کی شاہی سواری کا نظارہ کرتے ہوئے اس کے نیچے آکر کچلا بھی جائے تو لیڈرکے کان پر جون تک نہیں رینگتی اور اگر لیڈر کو ایک چھینک بھی آ جائے تو کارکن اس کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو کورونا کا کہ اس نے عام آدمی کی چھینک کو بھی درخوراعتنا کر دیا ہے عام آدمی کسی پبلک مقام پر چھینک مار دے تو اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔