کورونا کا نیا سنگین چیلنج !

January 21, 2022

کورونا وبا کی پانچویں لہر دنیا کے بہت سے ممالک کو عدم تحفظ، معاشی مشکلات، مکمل و جزوی لاک ڈائون جیسی جکڑ بندیوں میں بےبس کرتی نہ صرف پاکستان میں داخل ہو چکی ہے بلکہ مختصر عرصے میں بےلگام ہوکر اسپتالوں میں بستروں کی تعداد، قرنطینہ سہولتوں اور بعض دوسرے حوالوں سے چیلنج بنی محسوس ہو رہی ہے۔ تاہم پاکستانی قوم نے اگر عزم و ہمت کے ساتھ کورونا سے بچاؤ کی تدابیر ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بیرونی سرگرمیاں انتہائی ضروری مصروفیات (مثلاً معاشی و تعلیمی سرگرمیوں) تک محدود رکھیں اور حکومتی سطح، فلاحی تنظیموں کی سطح اور مخیر افراد کی سطح پر بیروزگاری و قرنطینہ سمیت مشکلات کے شکار خاندانوں کی اعانت کا سلسلہ منظم انداز میں جاری رہا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس لہر پر بھی کم سے کم وقت میں کامیابی سے قابو نہ پا لیا جائے۔ نومبر 2021میں افریقہ سے سامنے آنے والی تیز رفتار پھیلاؤ کی حامل اس نئی قسم کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے بعض متضاد اندازے سامنے آئے تھے مگر بعد میں واضح ہوا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ویکسی نیشن سے لوگوں کی قوت مدافعت بڑھنے کے باعث اس کی ہلاکت خیزی کا درست اندازہ شاید تاحال نہیں ہو سکا۔ اب احتیاطاً قوت مدافعت مزید بڑھانے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’بوسٹر ویکسین‘‘ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں کئی ملکوں میں کورونا کی نئی لہر کے باعث ہلاکت خیزی اور سماجی و معاشی مسائل کے حوالے سے خبریں آتی رہی ہیں۔تازہ خبریں بدھ کے روز جاپان کے 13علاقوں میں نیم ہنگامی حالت کے نفاذ، جرمنی میں ایک دن میں ایک لاکھ نئے کیسز کی رپورٹنگ، امریکہ میں 64ویں گریمی ایوارڈ کے دو سال بعد پھر موخر ہونے، بھارت میں عالمی پروازیں 28اپریل تک ملتوی ہونے سمیت تشویش انگیز اطلاعات پر مبنی ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئی اقسام کے سامنے آنے کے امکانات کی پیش بندی بھی ضروری محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پچھلے دنوں کورونا پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا مگر نئی افریقی قسم ’’اومی کرون‘‘ کی آمد کے بعد صورتحال یہ ہے کہ بدھ کے روز 8 مزید افراد انتقال کرگئے اور پانچ ہزار 4سو 72نئے مریض سامنے آچکے ہیں۔ کراچی میں مثبت کیسز کی شرح 39فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی کورونا میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وائرس کی نئی لہر کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے پھر پابندیاں لگا دی ہیں۔ 10فیصد سے زائد وائرس والے شہروں میں انڈور تقریبات اور ڈائننگ کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے جبکہ مزاروں، ٹرانسپورٹ، سنیمائوں اور تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں محدود ہوں گی۔ چھوٹے بچے ایک دن چھوڑ کر اسکول جائیں گے تاہم بارہ سال سے زائد عمر کے ویکسین شدہ بچوں کی مکمل حاضری لازمی ہوگی۔ کاروباری مراکز، دفاتر بند نہیں ہوں گے لیکن خطرے کے حساب سے ٹارگٹڈ لاک ڈائون کئے جاسکتے ہیں۔ این سی او سی کی پابندیوں کا اطلاق کراچی، لاہور، اسلام آبا اور حیدرآباد میں فوری طور پر ہوگا جبکہ محکمہ داخلہ سندھ نے بھی پابندیوں سے متعلق اعلان جاری کردیا ہے۔ یقینی بات ہے کہ حسب سابق پابندیوں سے میڈیا اور موبائل پیغامات کے ذریعے آگاہ کیا جاتا رہے گا۔ ضروری امر یہ ہے کہ تمام لوگ کورونا سے بچائو کی ویکسین لگوا ئیں اور جن افراد کو ویکسین لگوائے ہوئے چھ ماہ سے زائد ہو چکے ہیں وہ بوسٹر ویکسین لگوائیں۔ اس مقصد کیلئے حکومت کی طرف سےمفت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ویکسی نیشن اور احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد اپنی اور دوسروں کے تحفظ کی ضرورت بھی ہے اور ملک کو ان مسائل سے بچانے کا ذریعہ بھی، جن کانشانہ بالآخر ہم خود ہی بنتے ہیں۔