کیا واقعی ہمارے یہاں پیسے کی کمی ہے؟

January 24, 2022

ہمارے یہاں ہر مسئلہ کی وجہ وسائل کی کمی بتائی جاتی ہے۔ کیا واقعی یہی وجہ ہے؟ کیا واقعی ہمارے یہاں پیسے کی کمی ہے؟ چلیں کچھ چیزوں اور اخراجات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں عوامی نمائندوں کی تنخواہوں اور مراعات کی، جن کی تفصیل کئی دفعہ اس کالم میں کی گئی ہے۔ کیا قومی پیداوار کی شرح نمو(GDP GROWTH rate) کے حساب سے ان "عوامی نمائندگان" کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہوتا یا اس سے کہیں زیادہ؟ کیا کبھی یہ خبر سنی کہ خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے عوامی نمائندگان کی تنخواہیں دو مہینے سے ادا نہیں کی جا سکی ہیں جیسے درآمدات کے بل کی ادائیگیوں کے لئے خزانے کے خالی ہونے کا اعلان ہوتا ہے؟ اسی طرح صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلٰی، وفاقی و صوبائی وزراء و مشیران، سفرا، منصفین، قومی اداروں کے سربراہان وغیرہ وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں وسائل کی کمی کی بدولت کمی یا عدم ادائیگیوں کا ذکر تک نہ سنا۔ جب کہ ان کا بل بہت بڑا ہوتا ہے کیونکہ ملک میں علاج کی سہولیات ناکافی ہونے کی وجہ سے ان سب کو بیرون ملک علاج کی مفت سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں۔ جو کہ ایک مقروض ملک پہ نامناسب عیاشی کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جتنے وسائل ان لوگوں کی مراعات پہ خرچ کئے جاتے ہیں ان سے ملک میں اچھے تعلیمی ادارے اور اسپتال بن سکتے تھے۔ لیکن اس طرف وسائل کا رخ موڑنا تو کجا سوچنا بھی ناقابل تلافی جرم ہے۔چلیں آگے چلتے ہیں شہری، بلدیاتی، یا مقامی حکومتوں کے حالات کچھ اس سے مختلف نہیں۔ سب کے مکمل بجٹ ہر سال تیار کئے جاتے ہیں۔ ایک ایک مد کے رقم مختص کی جاتی ہے لیکن جب "کام کرنے کا وقت" آتا ہے تو وسائل کی تنگی آڑے آجاتی ہے۔ اگر حکومتی اداروں میں وسائل اور پیسے کی اتنی ہی کمی ہے تو سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کے لیے "رشوتیں، تعلقات اور سفارشات" پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ کیوں ایسی جگہ نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مسلسل خسارے میں ہوتی ہے؟ یقینا حقیقت اس کے برعکس ہے تبھی تو ہر سرکاری ادارے میں بڑے عہدے سے چھوٹے عہدے پہ کام کرنے والے کے معیار زندگی میں بہتری اور اضافہ قومی پیداوار کی شرح نمو اضافے سے بہت زیادہ ہے۔ آخر اس کے پیچھے کون سی سائنس یا معاشیاتی نظریہ کارفرما ہے جو کسی کو سمجھ نہیں آرہا؟ ہاں البتہ جب ادارے کے ملازمین کے امیر ہوتے ہوتے اور ادارہ مسلسل نقصان میں رہتے رہتے مکمل دیوالیہ ہوکر بند یا نجی شعبے کو بیچ دیا جاتا ہے تو یہی ملازمین آہ و بکا کرتے نظر آتے ہیں غریبوں اور مظلوموں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ لیکن ادارے کی تباہی کا الزام اپنے آپ پر لینے کی بجائے حکومت پہ ڈال دیتے اور میڈیا سمیت سب ان سے ہمدردی میں لگ جاتے ہیں۔ یہاں یہ حال ہے کہ جو کوئی بھی ایک دفعہ سرکاری نوکری حاصل کر لیتا ہے تو اس کا حدف صرف یہ ہوتا ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے وہ "پیسہ بنالے"، بھلے سے ادارے کی ساخت کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ یعنی "سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ایک ہی دفعہ ذبح کرکے سارے انڈے لے لئے جائیں"۔ جی ہاں ہمارے قومی اداروں کی تباہی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں انہی کے ملازمین ہیں چاہے وہ ادارے کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، واپڈا، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،ڈرگ ریگیولیرٹی اتھارٹی، ایج ای سی، پولیس، ٹریفک پولیس، Environmental Protection Agency، اینٹی اینکروچمنٹ بورڈ، وغیرہ وغیرہ۔ جو اپنے اصل کام کرنے کے بجائے ان کے ملازمین ادارے کو مضبوط کرنے کے بجائے صرف اپنے مالی "معاملات" بڑھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سارا زور اس بات پر ہے کہ جتنے ممکن ہوں اس قدر غیر ترقیاتی اخراجات کئے جائیں۔ کراچی کچرا اٹھانے کے لئے پیسے نہیں ہیں لیکن "مخصوص" علاقوں میں پل کی دیواروں پہ "ٹائلز" لگائے جارہے ہیں۔ جو کے لگنے کے کچھ عرصے بعد گرنا شروع ہوجاتے ہیں، اور بجائے خوبصورتی کے وہ بدنما لگتے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان ٹائلز کے لگانے سے بہتر نہ تھا کہ وہاں اچھا رنگ کروالیا جاتا اور بچے ہوئے پیسوں سے مختلف سڑکوں کی استرکاری کروالی جاتی جو کہ زیادہ ضروری ہے اور حادثات کو روکنے کے بھی وجہ بنتی۔ اسی طرح بہت سے ایسے اخراجات ہیں جن کے بغیر بھی گزارا ممکن تھا لیکن صرف بجٹ میں ظاہر کرنے کے لئے انہیں غلط استعمال کیا جاتا۔ تو حاصل بحث یہ ہے کہ وسائل کی کمی کا رونا زیادہ ہے اصل حقیقت ناقص منصوبہ بندی اور غیر ضروری یا

غیر ترقیاتی منصوبوں پہ غیر معمولی خرچہ کرنا ہے۔ جس کی درستگی کا ایک ہی حل ہے ہر ادارے کے ملازمین کی ملازمت شروع ہونے سے پہلے معیار زندگی اور اثاثوں اور بنک اکاؤنٹ کا حساب رکھاجائے اور پانچ سال بعد حساب لگایا جائے کہ ادارے نے زیادہ ترقی کی یا ملازمین میں۔ اس کے لئے آڈیٹرز اور اکاؤنٹس کی خدمات درکار ہوں گی۔ لیکن ۔۔۔لیکن یہ بھی تو انسان ہیں یہ بھول ہی گئے۔ یعنی سب کو ایماندار بنا ہوگا اگر قرضوں سے چھٹکارا چاہئے، اگر روپے کی بے قدری سے نجات چاہیے، آئی ایم ایف کے گرداب سے نکلنا ہے۔ فیصلہ ہم سب کو ہی کرنا ہے۔ صرف ایک کے ایماندار ہونے سے پورا معاشرہ ایماندار نہیں ہوجاتا۔ دل سے تبدیلی انفرادی طور پر لائی جاتی ہے اجتماعی اعلان سے نہیں۔

کیا واقعی ہمارے یہاں پیسے کی کمی ہے؟

minhajur.rabjanggroup.com.pk