صدارتی نظام کی خواہش

January 25, 2022

پاکستان کا پارلیمانی نظامِ حکومت ایک مرتبہ پھر مشقِ ستم ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ایک ایسے نظام کی وکالت میں زمین و آسمان ایک کیے جا رہے ہیں جو ملک میں کئی مرتبہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ بڑے منظم طریقے سے پہلے سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی، بعض ویب سائٹس نے اس موضوع پر پول کروایا، پھر اِس کی گونج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی سنائی دینے لگی، اخبارات میں اس کے حق اور مخالفت میں مضامین شائع ہوئے ہیں جب کہ ٹی وی ٹاک شوز میں اس موضوع پر یوں گفتگو ہو رہی ہے کہ جیسے یہ نظام صبح آیا کہ شام آیا۔ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا کر پورے ملک کو ہیجانی کیفیت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے قانونی نکات پر بحث کی جا رہی ہے جن کا عوام اور عوامی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متذبذب حکمران پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں۔

کبھی قوم کو چین کے ماڈل کی خوبیاں گنوائی جاتی ہیں، کبھی امریکہ کے صدارتی نظام کی باتیں ہوتی ہیں، کبھی ملائیشین ماڈل کی تحسین کی جاتی ہے اور کبھی سعودی عرب کے نظام انصاف کی باتیں قوم کو سنائی جاتی ہیں پھر اپنی بات کو تڑکا لگانے کے لیے ریاستِ مدینہ کا لفظ بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر غیرجانبداری سے موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے نااہلی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

مہنگائی بےقابو ہے، بیڈ گورننس اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پارلیمانی نظامِ حکومت کو مشکوک بنانے اور نئے نظامِ حکومت کی تشکیل کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ شاید بعض جغادری قسم کے دانشور اس بات کو بھول چکے ہیں کہ پاکستان میں چار مرتبہ صدارتی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

ہمارے محترم وزیراعظم جو اپنے مزاج کے اعتبار سے پاکستانی سیاست کے ’’انوکھے لاڈلے ہیں‘‘، وہ ایک طرف تو ایوب خان کے عشرہ ترقی سے متاثر نظر آتے ہیں اور اِسی سانس میں ریاستِ مدینہ کی بات بھی کرتے ہیں، اگر وہ تاریخ سے واقفیت رکھتے تو انہیں علم ہوتا کہ صدر ایوب خان کا عشرہ ترقی ایک پانی کے بلبلے کی مانند تھا جو ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

اِس نام نہاد ترقی کے دور کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ساری دولت چند خاندانوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی اور مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی اس بری طرح پیدا ہوا۔ دوسرے صدارتی نظامِ حکومت کا تحفہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے جبکہ تیسرے صدارتی نظام کا تحفہ ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف ہے۔

ان تینوں نظاموں میں یکسانیت یہ تھی کہ عوام کو براہِ راست ان کے حقِ انتخاب سے محروم کیا گیا تاکہ عوامی رائے، براہِ راست حکمرانوں پر اثر انداز نہ ہو۔ صدر مشرف کا نظام تو ابھی کل کی بات ہے، اُس دور میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

مشرف کے نظامِ حکومت میں اگر چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین جیسے قد آور سیاستدان شامل نہ ہوتے تو معلوم نہیں اِس نظام کا کیا حشر ہوتا، بار بار کے تجربات نے جمہوریت کو انتہائی کمزور کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ جمہوری نظام کی مخالفت شروع کر دیتا ہے

لیکن عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انہیں ایک ایسی پوزیشن ملی ہے جو ہر لحاظ سے منقسم بھی ہے اور منتشر الخیال بھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، ایسی منقسم اور کمزور اپوزیشن پاکستان کی تاریخ میں نظر نہیں آئے گی، بلاول بھٹو زرداری کیلئے ایک بہترین موقع تھا کہ وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔

میاں شہباز شریف کو بھی اپنا سیاسی تجربہ بروئے کار لانا چاہیے تھا لیکن یہ دونوں رہنما مصلحت کے اسیر رہے۔ اپوزیشن کے احتجاج اور لانگ مارچ سے اگر مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی قوت نکال دی جائے تو اپوزیشن کے پلے کیا بچتا ہے؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں کی۔

اِن دونوں جماعتوں سے بہتر کارکردگی تو جماعت اسلامی کی ہے جس کی پارلیمان میں تو اس طرح نمائندگی نہیں لیکن گوادر، لاہور اور کراچی میں مہنگائی اور عوامی مسائل پر اُس نے موثر احتجاج کیا ہے۔

اگر آج محترمہ بےنظیر بھٹو مولانا فضل الرحمٰن، میاں نواز شریف اور جناب اسفند یار ولی جیسے قد آور اور بہادر لوگ اپوزیشن کا حصہ ہوتے تو شاید قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پارلیمانی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوئی کوشش ممکن نہ ہوتی۔ اس کمزور اپوزیشن کی وجہ سے جمہوریت بےتوقیر ہوئی ہے اور حکومتی کنفیوژن کی وجہ سے ملک کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔

صدارتی نظاموں کی لائی ہوئی بربادی، ملک کے دولخت ہونے کے باوجود اس نظام کے حق میں قصیدہ گوئی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ انوکھے لاڈلے کی خواہش یہ ہے کہ وہ بادشاہوں کی طرح حکومت کرے۔ کسی ادارے کی جرأت نہ ہو کہ اس کی خواہشات کی تکمیل کے سامنے رکاوٹ بنے، جب جی چاہے کسی کو جیل میں ڈال دے۔

یاد رکھا جانا چاہیے کہ پاکستان ایک آئینی ریاست ہے۔ 1973کے دستور کی تدوین میں ملک کے چوٹی کے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے حصہ لیا تھا۔ یہ واحد دستاویز ہے جس پر ملک کی تمام اکائیاں متفق ہیں۔ اگر اس آئین سے سرمو بھی انحراف کیا گیا تو نہ لاڈلے باقی رہیں گے اور نہ ہی ان کے عزائم۔

1973کا آئین بار بار معطل کیا گیا لیکن کوشش کے باوجود کوئی اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ اس کو پامال کیا گیا لیکن عوامی طاقت کے بل بوتے پر بار بار ابھر کر سامنے آیا۔ یہ آئین پاکستان کی وحدت کی علامت اور استحکام کی ضمانت ہے۔

صدارتی نظام کے فضائل بتانے کی بجائے اپنی گورننس بہتر کریں، جمہوری نظام میں کیڑے نکالنے کے بجائے اپنے اندازِ حکومت میں تبدیلی لائیں، سیاستدانوں پر تبرا کرنے کی بجائے اپنے رویے کو جمہوری اور سیاسی بنائیں، یہ ملک کسی کی خواہشات کے لیے تجربہ گاہ نہیں بلکہ 22کروڑ عوام کی امیدوں کا مرکز ہے، اسے کسی فردِ واحد کی خواہشات کی تکمیل کیلئے تختۂ مشق نہیں بنایا جا سکتا۔