بچوں کو مسجد لانا

January 28, 2022

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں کچھ عرصہ عرب ممالک میں رہا ہوں ، وہ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لاتے ہیں ، جب کہ پاکستان میں اس بات کو برا مانا جاتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو بیج آج ہم بوئیں گے ، وہی کل کاٹیں گے، آج بچوں کو کم عمری میں نماز کی عادت نہیں ڈالی تو بڑے ہوکر بچے مسجد نہیں جاتے، عرب میں بچوں کو کم عمری میں لایا جاتا ہے تو بچے عمر کے ساتھ ساتھ اکیلے مسجدجانا شروع ہوجاتے ہیں، اب مسئلہ آپ کے سامنے ہے، مجھے بتائیں کہ بچوں کو کیسے مسجد کی عادت ڈالی جائے۔ میں نے عملی طور دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو مسجد ساتھ لاتے ہیں ،آج ان کے بچے تھوڑے سے بڑے ہیں تو خود مسجد آتے ہیں اور باجماعت نمازی ہیں ، امید ہے آپ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں گے۔ (ناصر محمود، اسلام آباد)

جواب: چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ مسجد لانے میں وہ فوائد ہیں جو آپ نے ذکرکیے ہیں، دوسری طرف مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے، اس لیے وہاں کاتقدس اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، اور بسا اوقات بہت کم عمر بچے مسجد میں آکر گندگی کردیتے ہیں، جس کے متعلق حدیث شریف میں ہےکہ اپنی مسجدوں کوبچوں اور پاگلوں سے دوررکھو۔ شریعت کاحسن ہے کہ اس نے فوائد کی بھی رعایت رکھی ہے اورنقصانات سے بچنے کابھی اہتما م کیا ہے، چناں چہ بچوں کو مسجد میں لانے کے حوالے سے شرعی حکم کی تفصیل یہ ہے:

(1) جو بچے اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں کہ انہیں پاکی وناپاکی، نماز، وضو ، مسجد اور غیرمسجد کا بالکل شعور نہ ہو اور ان سے مسجد ناپاک ہوجانے کا غالب گمان ہو تو انہیں مسجد میں لانا جائز نہیں ہے۔

(2) وہ بچے جو تھوڑی بہت سمجھ رکھتے ہوں اور ان سے مسجد کی بے حرمتی اور ناپاک ہونے کا غالب گمان نہ ہو، البتہ احتمال ہو، تو ایسے بچوں کو مسجد میں لانا مکروہ ہے۔

(3) وہ بچے جو پاکی ناپاکی، نماز، وضو اور مسجد کا ادب سمجھتے ہوں، انہیں مسجد میں لانا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ سات سال کی عمر کے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ مسجد میں لانا چاہیے، اور سرپرست کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے۔

اب اگر ایسے نابالغ بچے متعدد ہوں تو ان کی صف مردوں کی صفوں کے پیچھے بنانا مستحب ہے، لیکن اِس زمانے میں بچوں کو بڑوں کی صفوں میں ہی کھڑا کرنا چاہیے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے جمع ہوکر اپنی نماز بھی خراب کریں گے اور بالغین کی نماز میں بھی خلل پیدا کریں گے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب ما یکرہ فی المساجد رقم: ۷۵۰۔درمختار ۲؍۴۲۹ زکریا۔ درمختار / باب الامامۃ ۲؍۳۱۴ زکریا، کذا فی البحر الرائق ۱؍۶۱۸ رشیدیۃ، مجمع الأنہر، فصل: الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ ۱؍۱۰۹ بیروت۔ وفی الرافعی: قال الرحمتی وربما یتعین فی زماننا إدخال الصبیان فی صفوف الرجال، لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلیٰ إفساد صلاۃ الرجال۔ تقریرات الرافعی علیٰ الدر المختار ۲؍۷۳ زکریا۔احسن الفتاویٰ، 3/280) فقط واللہ اعلم

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

masailjanggroup.com.pk