جسٹس فائز نظرِ ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

January 29, 2022

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظرِ ثانی کی درخواستیں اکثریت سے منظور کر لیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرِ ثانی کی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

عدالتِ عظمیٰ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021ء کو سنایا تھا، 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالا تر نہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن یہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑوں بڑوں کے خلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کابنیادی حق ہے، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سیرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔

تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انہیں موردِالزام نہیں ٹھہرایاجا سکتا۔

عدالتِ عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے مطابق بینچ کا اکثریتی فیصلہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے، جن ججز نے مرکزی کیس میں فیصلے سے اختلاف کیا وہ نظرِثانی کیس میں فیصلہ حق میں دے سکتے ہیں، جج اپنے ہی دیے ہوئے فیصلے کی نظرِ ثانی کیس میں تصحیح کر سکتے ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں، ان کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہو گی، ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بر طرف ہو جاتے، جج کی بر طرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آ سکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو چکے ہوتے۔

عدالتِ عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ تسلیم نہ کرتی، از خود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا۔

تحریری تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل صدرِپاکستان کی سفارش پر ججز کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلِ خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا، مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا مکمل مؤقف نہیں سنا گیا تھا، کسی ایک جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔