سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز کی اہلیہ سرینا عیسیٰ دلائل دیتے ہوئے مرحوم والد کے ذکر پر آبدیدہ ہو گئیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا 10 رکنی فل کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کمرہ عدالت میں موجود تھے، جسٹس مقبول باقر نے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ مسز عیسیٰ آپ سے درخواست ہے کہ کم سے کم وقت میں دلائل مکمل کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صرف یہ بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 20 جون 2020ء کے فیصلے میں کیا غلطی تھی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل بینچ نے ایف بی آر کی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئی خفیہ رپورٹ ہمیں دینے کی ہدایت کی، آرڈر کے باوجود خفیہ رپورٹ ہمیں موصول نہیں ہوئی، میرے ٹیکس معاملات ذاتی ہیں، میرے شوہر سے بھی خفیہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے ذاتی ٹیکس معاملات پر مبنی ایف بی آر کی رپورٹ تمام ججز نے پڑھی، ایف بی آر کا میرے ٹیکس معاملات کی رپورٹ میرے علم میں لائے بغیر جمع کرانا غیر قانونی ہے، 2 سال سے میری زندگی ٹاک شوز میں زیرِ بحث ہے، فواد چوہدری، شہزاد اکبر، فردوس عاشق اعوان اور ٹی وی چینلز نے میری نجی زندگی پبلک کی، ایک اخبار نے ایف بی آر رپورٹ کے آدھے سچ شائع کیئے جو ان کو غیر قانونی طور پر دیئے گئے۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں 2 سال میں ہزار بار مرچکی ہوں، مجھے مزید مشکلات میں نہ ڈالا جائے، میرے شوہر کو ایف بی آر نے طلب نہیں کیا، نہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے بلایا، ایف بی آر کے چیئرمین کا رپورٹ پیش کرنا غیر قانونی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی فریق کے درخواست کرنے پر عدالت میں جمع خفیہ رپورٹ نہیں دی جاسکتی۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں نے رپورٹ کیلئے درخواست نہیں کی، عدالت نے خود دینے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کا مجھے ایف بی آر بھیجنے کا حکم درست نہیں تھا، میں نے 18 جون 2020ء کو اپنی ٹیکس، پیسے ٹرانسفر کی تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں، عدالت نے فیصلہ کرتے ہوئے میری دستاویزات کا درست جائزہ نہیں لیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے سرینا عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کراچی اسکول کی آمدن اور کلفٹن سے کرائے کی رقم کو ایف بی آر نے نظر انداز کیا، آپ مرکزی مقدمے میں فریق نہیں تھیں، آپ نے خود پیش ہو کر کہا کہ میں عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بات حقائق کے منافی ہے، فروغ نسیم عدالت میں آ کر جادوئی باتیں کرتے تھے، اب فروغ نسیم عدالت میں نہیں آتے، فروغ نسیم سچ کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے، وہ کبھی سلائی مشینوں کی اور کبھی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ آپ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہ کریں، آپ اپنی نشست پر جاکر بیٹھ جائیں۔
پھر انہوں نے سرینا عیسیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ پہلی بار دلائل دے رہی ہیں، اس لیے بینچ سوال پوچھ رہا ہے۔
سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں بینچ کے سوالات لکھ لیتی ہوں پھر آخر میں جواب دوں گی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے سرینا عیسیٰ سے سوال کیا کہ آپ نے بیرونِ ملک جعلی اکاؤنٹ نہیں کھولا؟ آپ نے ٹرسٹی اکاؤنٹ کا سہارا بھی نہیں لیا؟ آپ نے تمام رقوم کی منتقلی بینک کے ذریعے کی؟ پاکستان سے جو رقم باہر بھیجی وہ خریدی گئی جائیدادوں کی مالیت سے مطابقت رکھتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ آپ نے وضاحت 5 اگست 2009ء کے بعد سے دینی ہے، 5 اگست 2009ء کو آپ کے شوہر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنے تھے، 2009ء کے بعد 2 جائیدادوں پر سوالیہ نشان ہے، 2009ء سے پہلے آپ کے شوہر پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ آپ مالی طور پر پہلے سے مستحکم ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ مجھ پر اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ پُر اعتماد انداز میں دلائل دیں، ہم فیصلے میں غیر قانونی اور غیر آئینی نکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت کا بنیادی سوال ہے کہ ریفرنس ایف بی آر بھیجنے سے قبل آپ کو سننا کیوں ضروری تھا؟
سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ 19 جون 2020ء کا فیصلہ حنیف عباسی بنام عمران خان کے حکم کے منافی ہے، آرٹیکل 19 اے فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اپنا 19 جون 2020ء کا عدالت میں دیا گیا بیان دیکھیں، آپ کو سنا گیا تھا، اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ آپ کو موقع نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائیں ان پر دلائل دیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے میں نے سوال کیا مجھے جواب دیں، آپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ججز مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے، آپ عدالت آنا چاہتی تھیں لیکن آپ کے شوہر نہیں چاہتے تھے، آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنا مؤقف عدالت میں پیش کیا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اپنے والد کی وجہ سے عدالت آئی تھی۔
سرینا عیسیٰ اپنے مرحوم والد کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کو کافی سن لیا ہے، اب آپ بیٹھ جائیں۔
سرینا عیسیٰ نے دلائل مکمل کر لیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا مقصد آپ کو اداس کرنا نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج بننے سے قبل 31 لاکھ ماہانہ کماتا تھا، حکومت کے مطابق تو آج بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوں، میرے کیس میں ایک نہیں تین سوموٹو نوٹس لیے گئے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا بنیادی نکتہ ہے کہ آپ کو سماعت کا موقع نہیں ملا، عدالت میں دیا گیا اپنا بیان نہیں پڑھیں گے تو منفی تاثر جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ باضابطہ سماعت ہوئی تو ٹھیک ہے، میری اہلیہ اپنے بیان سے نہیں مکر رہیں، عدالت سرینا عیسیٰ کی بات سے متفق نہیں تو درخواست خارج کر دے، کل آپ کی بیویاں بھی یہاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی سائل سے قانون کا لیکچر نہیں لے سکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج اور ججز کے خاندان کے بارے میں کوئی دھوکا نہیں ہونا چاہیئے، اس کیس میں 3 از خود نوٹس ہوئے، ایک از خود نوٹس سپریم کورٹ، ایک سپریم جوڈیشل کونسل اور ایک ایف بی آر نے لیا، از خود نوٹس مفادِ عامہ کے معاملات پر لیے جاتے ہیں، اس میں کون سا مفاد تھا؟
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ بس یہ بتادیں کہ ایف بی آر کو ریفرنس بھیجنا کیسے غیر قانونی تھا؟ ان سوالات پر آپ کو یا کسی کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں تکلیف ہے کہ سرینا عیسیٰ کو سوالوں سے ضرر پہنچی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان میں سے ہیں جنہوں نے ملک بنایا، ملک کے لیے جان بھی دے دیں گے، میں اپنی ذات پر نہیں ملک کے لیے جذباتی ہوتا ہوں، میں آخری مجاہد ہوں گا جو اس ادارے اور ملک کیلئے لڑتا رہوں گا، ایف بی آر شہزاد اکبر کی ملکیت ہے، ایف بی آر کی تحقیقات بدنیتی پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر صاحب نے عبدالوحید ڈوگر کی بات پر انحصار کر کے ریفرنس بھیجا، فیض آباد دھرنے میں جو فیصلہ دیا اس پرعمل ہوتا تو آج یہ نہ ہو تا، 12 مئی کے ذمے داران کے خلاف کارروائی ہوئی ہوتی تو آج وہ دبئی نہ بیٹھا ہوتا، آپ اگر دستاویزات پر انحصار کرنا نہیں چاہتے تو آپ کی مرضی، اللّٰہ تعالیٰ مجھے غرق کریں اگر میں اس کرسی کا خواہشمند ہوں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ سوالات سے رنجیدہ ہو رہے ہیں، آپ کی باتیں قبول کرنے کیلئے ہمیں قانونی راستہ چاہیئے، سرینا عیسیٰ نے بہت ٹھوس باتیں کیں، اگر آپ کو اس معاملے سے خود کو نکالنا ہے تو قانونی نکتے پر دلائل دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بھی جج بنے تو اپنی اہلیہ سے پوچھ لے کہ مجھ پر جو عذاب گزریں گے اس کیلئے تیار ہو۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ صرف 3 سوالوں کے جواب دے دیں، کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹ سے مکمل لا تعلق ہیں؟ بیرونِ ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے جو رقم باہر بھیجی، کیا جسٹس فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟ کیا جائیداد کی خریداری کیلئے جو اخراجات کیئے ان کا جسٹس فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں؟
انہوں نے کہا کہ میں ہر روز یہ آیت پڑھتا ہوں کہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے، آپ نے یہاں اتنی باتیں سنائیں، ہم نے سنیں، آپ اس سب کو درگزر کریں، میں بھی جذباتی ہو سکتا ہوں، لیکن نہیں ہو رہا، ہم ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، جو محبت آپ سے ہے اس کا اظہار عدالت میں نہیں کر سکتے، آپ کو حکومت کو جو بھی کہنا ہے عدالت سے باہر کہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم چیلنج کیا ہے، عدالتی حکم برقرار رہا تو آپ کی ایف بی آر سے شکایات متعلقہ فورم پر ہو گی۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان نے آف شور کمپنی کو تسلم کیا تھا، عمران خان کے لیے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں رکھا گیا، عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں میں نہیں، عمران خان آج وزیرِ اعظم ہیں اور میں ایک عام شہری۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کل عدالتی سوالات کے جوابات دیں گے۔