سدھے نہرو نہر

March 26, 2022

آپ اگرجنگل کے قانون کے تحت زندگی نہیں گزارنا چاہتے تو جنگل سے شہر کی جانب ہجرت اختیار کیجیے، راستہ بہت سیدھا ہے، بہت ہی آسان، یہ جو سامنے شاہراہ دکھائی دے رہی ہے اس پہ چڑھ جائیں اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلے جائیں، جلد یا بہ دیر آپ شہر پہنچ جائیں گے، بس آپ نے یہ سڑک نہیں چھوڑنی، اس سفر میں دو چار بہت سخت مقام آئیں گے، رستے کے دونوں جانب جا بہ جا سبز باغوں کے کنجِ دل فریب آپ کو اپنی اور بلائیں گے، کہیں شکسپئیر کی چڑیلیں یک دم نمودار ہو کر پہاڑوں کے عقب میں واقع کسی پرستان کے سرور آگیں روزو شب کے قصے سنا کر آپ کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کی کوشش کریں گی، لیکن جسے شہر پہنچنا ہے ثابت قدم رہے، بس یہ سڑک نہیں چھوڑنی، یعنی لاہور والوں کی زبان میں ’سدھے نہرو نہر‘۔ اور اس سڑک کا نام بابائے قوم محمد علی جناح نے شاہراہِ دستور رکھا تھا، آئین کا راستہ۔

ہم نے بہ طور قوم قائد اعظم کی بات نہیں مانی، کئی بار تو ہم نے باڑ لگا کر وہ راستہ ہی بند کر دیا، سیدھا راستہ چھوڑ کر پگ ڈنڈیوں پر اتر گئے، بھٹک گئے، خوار ہوئے اور دوبارہ جنگل کی طرف جا نکلے۔ کسی صاحب نے آئین کو محض کاغذ کا ایک پرزہ قرار دیا اور کسی بزعمِ خویش بزرجمہر نے آئین کا صحیح مقام ردی کی ٹوکری بتایا۔ ہم نظام بدلتے رہے، نیت نہیں بدل سکے۔ اور بد نیتی کی بنیاد پر تو گندا دھندا بھی نہیں چلتا، سو ہمارے ایجاد کردہ سب نظام تاریخ کے کوڑے دان میں اوندھے منہ جا گرے، ایوب خان کی بنیادی جمہوریت سے لے کر ضیاالحق کی کنٹرولڈ جمہوریت تک اگر آپ کسی بھی ایسے اینڈی بینڈی نظریے کی زیارت کرنا چاہیں تو اسی کوڑے دان سے رجوع کیجیے۔ (ہائی برڈ نظام کا ذکر تاریخ دان پر چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں)۔

اب لمحہ موجود میں آ جائیے۔ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کرائی تو اس پر آگے بڑھنے کا واضح طریقۂ کار آئین میں موجود ہے، بالکل سیدھا راستہ ہے، اس پر چلتے جائیں زندگی آسان ہو جائے گی۔ آئین کہتا ہے اسمبلی میں ثابت کریں کہ وزیرِاعظم اکثریت کھو چکے ہیں، آئین یہ نہیں کہتا کہ اگر وزیرِاعظم اپنے حامیوں کا دس لاکھ کا جلسہ اسمبلی سے باہر کرے تو تحریکِ عدم اعتماد ناکام قرار دے دی جائے گی، نہ ہی آئین قومی اسمبلی کے اراکین پر یہ شرط عائد کرتا ہے کہ اسمبلی کے باہر اک خلق کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے، اور اسی طرح اگر اپوزیشن بیس لاکھ کا جلسہ بھی کر لے تو وزیر اعظم عمران خان ہی رہیں گے، بلکہ ایک کروڑ بہتر لاکھ افراد کا مجمع بھی وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹا سکتا، اس کے لیے اسمبلی کے اندر 171کا ہندسہ عبور کرنا ہوگا۔

اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کا قائدہ بھی آئین میں واضح طور پر درج ہے، کون ووٹ ڈال سکتا ہے، کون نہیں ڈال سکتا۔ آئین پارلیمنٹ لاجز یا سندھ ہائوس پر حملے کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا، اگر کسی پارٹی کو اپنے ممبران سے وفاداری بدلنے کی شکایت ہے تو اس کے لیے بھی آئین واضح احکامات دیتا ہے۔ بلاشبہ، آئین فلور کراسنگ کو ناپسند کرتا ہے اور اس کے لیے تادیبی کارروائی کا حکم بھی دیتا ہے، اور پھر اس کارروائی کا قانونی راستہ بھی بتاتا ہے۔ حکومت نے بہت اچھا کیا جو اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا، یہ جاننے کے لیے کہ کیا جرم سرزد ہونے سے پہلے اس کی سزا دی جا سکتی ہے؟ کوئی حرج نہیں اگر حکومت ایسا سوال کر رہی ہے جس کے بارے آج سے پہلے کبھی ابہام محسوس نہیں کیا گیا، حکومت چاہے تو اس سے بھی زیادہ معصومانہ سوال پوچھے، یہ اس کا آئینی حق ہے۔

اسی طرح قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست موصول ہونے کے چودہ دن کے اندر اجلاس بلانا بھی ایک واضح آئینی حکم ہے جس کی تعمیل میں قطعاً کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تھی، نہ تو ملک حالتِ جنگ میں تھا نہ ہی قدرتی آفات کی زد میں۔ اس ضمن میں حکومت کے دلائل سراسر بودے نظر آتے ہیں۔ اور اس طرح آئین کی منشا پوری کرنے کا ایک آسان موقع ضائع کر دیا گیا۔ اسپیکر اسد قیصر نے ایک اور بیان بھی دیا جو وہ نہ دیتے تو بہت اچھا کرتے، فرماتے ہیں کہ اسپیکر جتنے دن چاہے اجلاس ملتوی کر سکتا ہے۔ غالباً اسی کو مقامِ افسوس کہتے ہیں۔ برطانوی مفکر جون لوک یاد آ گئے جنہوں نے پہلی مرتبہ ’موم کی ناک‘ والی اصطلاح استعمال کی تھی۔

حکومت آنی جانی شے ہے، آئین مستقل دستاویز ہے۔ فریقین بالخصوص حکومت پر یہ لازم ہے کہ آئین سے انحراف نہ کرے۔ خان صاحب سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے جو ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں وہ بہ طور سیاست دان ان کا حق ہے، اس ضمن میں ان پر تنقید نہیں کی جا سکتی، وہ اگر اپنے فینز کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی حالتِ حال کا سبب ان کی حد سے بڑھی ہوئی قومی حمیت ہے، Absolutely Notکا نعرۂ مستانہ ہے، روس کا دورہ ہے، یا اسلامی دنیا کی قیادت کا تاج ہے جوان کے سر کی زینت بننے ہی والا ہے، تو یہ ان کا حق ہے۔ اور اگر اپوزیشن کہتی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کو گروی رکھنے والا کیا عوام کو احمق سمجھتا ہے تو ان کا بھی یہ آئینی حق ہے۔

میدانِ سیاست کے دائو پیچ سر آنکھوں پر، مگر یہ زور آزمائی آئینی دائرے کے اندر رہ کر کیجیے، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ ورنہ آئین سے سرکشی کی سزا تو ہم 75سال سے کاٹ ہی رہے ہیں۔