دنیا کی آبادی کو غذائی تحفظ کیسے فراہم کیا جائے؟

March 28, 2022

’’تنازعہ اور بھوک آپس میں لازم و ملزوم ہیں، جب ایک بڑھتا ہے تو دوسرا عام طور پر اس کی پیروی کرتا ہے۔ جیسا کہ کسی بھی تنازعہ میں ہوتا ہے، یہ سب سے زیادہ غریب اور سب سے زیادہ کمزور طبقہ کودیگر کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرتا ہے، اور عالمگیریت کے موجودہ زمانہ میں کسی بھی تنازعہ کے اثرات براعظموں تک پھیلتے ہیں‘‘، یہ الفاظ ہیں گلبرٹ ہونگبو کے، جو ٹوگو کے سابق وزیر اعظم اور اب اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے زرعی ترقی (IFAD) کے صدر ہیں۔

روس-یوکرین بحران کے پیشِ نظر، ہونگبو سمیت دیگر ماہرین، خوراک کے عالمی تحفظ کے حوالے سے اُبھرنے والے خطرات کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا بین الاقوامی ادارہ برائے زرعی ترقی اس بات پر ’بہت فکر مند‘ ہے کہ روس-یوکرین تنازعہ میں طوالت دنیا کی اہم فصلوں جیسے گندم، مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی رسد کو محدود کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتیں آسمان کو چُھو سکتی اور بھوک بڑھ سکتی ہے۔ ’’یہ تنازعہ عالمی غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے‘‘۔

موجودہ صورتِ حال کیا ہے؟

گزشتہ دو برسوں کے دوران کووِڈ-19وبائی مرض نے پہلے ہی ’گلوبل فوڈ سسٹم‘ اور دنیا کے 7.9ارب افراد کو غذا دستیاب کرنے کی دنیا کی صلاحیت کو کافی متاثر کیا ہے۔ بھوک کا خاتمہ 2030ء تک اقوام متحدہ کے 17پائیدار ترقی کے اہداف میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پانچ مختلف ذیلی اداروں کے اشتراک میں عالمی خوراک کے تحفظ اور غذائیت سے متعلق تیار کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں محققین تسلیم کرتے ہیں کہ اس ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، 2020ء میں دنیا میں 7کروڑ20 لاکھ تا8کروڑ11 لاکھ لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ تقریباً10 میں سے ایک کے قریب ہے اور 2019ء میں تقریباً 7کروڑ تا 16کروڑ10لاکھ زیادہ لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ خطے، دیگر کے مقابلے میںزیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2020ء میں افریقا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص (21فی صد) کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا جو کہ کسی بھی دوسرے خطے کے تناسب سے دُگنا ہے جبکہ ایک سال میں 3فیصد اضافہ ہوا۔ لاطینی امریکا میں2020ء میں 10 میں سے ایک شخص کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ غذائیت کی کمی بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 2020ء میں، پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 22فی صد یعنی 14کروڑ90 لاکھ سے زیادہ بچوں کو غذائیت کی کمی کی وجہ سے کمزور نشوونما کا شکار ہونا پڑا اور اس طرح کی کمزور نشوونما کے حامل تقریباً تین چوتھائی بچے صرف دو خطوں وسطی اور جنوبی ایشیا (37فی صد) اور سب صحارا-افریقا (37فی صد) میں رہتے ہیں۔

روس-یوکرین تنازعہ کا کیا اثر پڑے گا؟

یوکرین عالمی خوراک کے نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ IFAD کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ مل کر، دنیا میں تجارت کی جانے والی کھانے کی کیلوریز کا 12فیصد مشترکہ طور پر دونوں ممالک کا ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے زرعی ترقی کے مطابق، خوراک کے عالمی نظام میں یوکرین کا کلیدی کردار ہے اور روس کے ساتھ مل کر یہ دونوں ممالک دنیا کو 12 فی صد کیلوریز فراہم کرتے ہیں۔

یوکرین کی گندم اور مکئی کی برآمدات کا تقریباً نصف (40فی صد) مشرق وسطیٰ اور افریقا کو جاتا ہے، جو پہلے ہی بھوک کے مسائل سے دوچار ہیں اور وہاں خوراک کی مزید قلت یا قیمتوں میں اضافہ سماجی بے امنی کو ہوا دے سکتا ہے۔

مصر، دنیا میں گندم کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس میں سے زیادہ تر وہ یوکرین اور روس سے درآمد کرتا ہے، جس پر بہت سے خاندان انحصار کرتے ہیں۔ ہونگبو کا کہنا ہے کہ،’’اس تنازعہ کا جاری رہنا، جو پہلے ہی اس میں براہ راست شریک ممالک کے لیے ایک المیہ ہے، طول پکڑنے کی صورت میں پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوگا اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو پہلے ہی اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق، ایک سال پہلے کے مقابلے فروری 2022ء میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ قیمتیں نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ، ’’سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہم خوراک کے عالمی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ بحران کتنا شدید ہوگا؟‘‘

عالمی خوراک کی سلامتی کیلئے دیگر اہم چیلنجز

اقوام متحدہ کے اداروں کی بھوک اور غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے مشترکہ رپورٹ حالیہ اضافے کے بڑے محرکات کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ تنازعات، موسمی تغیرات اور انتہائی معاشی سست روی اور انحطاط جوکہ کووِڈ-19وبائی مرض سے بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ غذائی عدم تحفظ اور غذا کی کمی کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی نشوونما نہ پانے کے مسئلے کا شکار ہیں کیونکہ وہ صحت بخش خوراک کی قیمت برداشت نہیں کر سکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان وجوہات کے اثرات پہلے سے موجود عدم مساوات کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں اور وہ اکثر آپس میں جُڑے ہوتے ہیں۔

عالمی تنازعات، مثال کے طور پر خوراک کے نظام کے تقریباً ہر پہلو کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں، جس میں پیداوار، کٹائی، پروسیسنگ اور نقل و حرکت سے لے کر اِن پٹ سپلائی، مالی وسائل کی فراہمی، مارکیٹنگ اور کھپت شامل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ،’’براہِ راست اثرات میں زرعی اور ذریعہ معاش کے اثاثوں کی تباہی شامل ہو سکتی ہے اور یہ اشیا اور خدمات کی تجارت اور نقل و حرکت کو شدید طور پر متاثر اور محدود کر سکتے ہیں، جس سے غذائیت سے بھرپور خوراک سمیت خوراک کی دستیابی اور قیمتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے‘‘۔

بھوک اور خوراک کے عدم تحفظ کا خاتمہ

روس-یوکرین تنازعہ سے قبل شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں ان چیلنجوں سے نمٹنے اور سب انسانوں کے لیے پائیدار اور جامع طور پر سستی صحت بخش غذا تک رسائی کو یقینی بنانےکے لیے خوراک کے نظام کو تبدیل کرنے کے چھ طریقے تجویز کیے گئے ہیں :

1- تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں انسان دوستی، ترقی اور قیام امن کی پالیسیوں کو مربوط کرنا۔

2- خوراک کے نظاموں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لچک کو بڑھانا۔

3- انتہائی معاشی مشکلات کے شکار لوگوں کی لچک کو مضبوط کرنا۔

4- غذائیت سے بھرپور کھانے پینے کی اشیا کی لاگت اور قیمتوں کو کم کرنے کے لیے فوڈ سپلائی چین میں جدت لانا۔

5- غربت اور اسٹرکچرل عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے اس بات کو یقینی بنانا کہ غریب نواز اور جامع پالیسیاں نافذ کی جائیں۔

6- غذائی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے خوراک کی ماحولیات اور صارفین کے روّیوں میں تبدیلی لانا تاکہ انسانی صحت اور ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔

پاکستان کی زراعت

پاکستان زرعی وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی حد تک درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ بڑھتے عالمی تنازعات اور عالمی سطح پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے پیشِ نظر ہم اپنے زرعی وسائل کو فروغ دے کر ناصرف ملک کے اندر غذائی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کی خوراک کی ضروریات پوری کرکے اس سے قیمتی غیرملکی زرِمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔