مفت مشورے

April 05, 2022

مفت مشورہ دینا، میری عادت ہے۔ میرے والدین، میرے استادوں نے، اڑوس پڑوس کے سیانوں نے مجھے دوسروں کو خواہ مخواہ مشورے دینے سے باز رکھنے کیلئے بڑے جتن کئے مگر سب ناکام رہے، میں مشورے دینے سے باز نہیں آیا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مرتے دم تک میں مشورے دینے کی عادت نہیں چھوڑوں گا، مرنے کے بعد بھی مشورے دینے کی عادت سے باز نہیں آئوں گا۔ اگر آپ صاحب ثروت ہیں اور آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، مرنا جینا ایئرکنڈیشن ماحول میں ہے اور آپ اس کے عادی ہوچکے ہیں تو پھر میرا مفت مشورہ ہے کہ آپ اپنی آخری آرام گاہ کیلئے اچھی جگہ کا انتخاب کرلیں، پسندیدہ مقام پر اپنی آخری آرام گاہ کیلئے دو گز زمین خرید لیں۔ کراچی کے اچھے علاقوں میں آخری آرام گاہ کیلئے دو گز زمین کی قیمت دس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ فوراً سے پیشتر کسی اعلیٰ مقام پر اپنی آخری آرام گاہ کیلئے دو گز زمین خرید لیں۔ ایک اندازے کے مطابق آنے والے وقتوں میں دو گز زمین کی قیمت دس لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ روپے ہوجائے گی۔ دو گز زمین خریدنے کے بعد آپ کسی ماہر تعمیرات سے جدید طرز کی آخری آرام گاہ بنوانے کیلئے گفت و شنید کرلیں۔ آپ کی آخری آرام گاہ مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہونی چاہئے۔ اگر آپ واقعی ٹاٹا اور برلا کی ٹکر کے صاحب ثروت ہیں تو پھر میرا مشورہ ہے آپ اپنی آخری آرام گاہ پر سنگ مرمر کا مقبرہ بنوا لیں۔ ایک پتے کی بات بتا دوں میں آپ کو، مرنے کے بعد آپ اپنا مقبرہ نہیں دیکھ سکتے اس لئے زندہ ہوتے ہوئے آپ اپنا مقبرہ بنوا لیں۔ اپنا مقبرہ دیکھتے رہیں اور خوش رہیں۔ ایک صاحب نے جل بھن کر کہا تھا۔ ’’تم سب کو مشورے دیتے پھرتے ہو، کبھی تم نے خود بھی ان مشوروں پر عمل کرکے دیکھا ہے؟‘‘سوال پوچھنے والے کو میں نے سر سے پائوں تک دیکھتے ہوئے کہا۔ میری بات غور سے سن سیانے! میں تم لوگوں کو مفت میں مشورے دیتا ہوں، مشوروں پر عمل کرنا تمہارا کام ہے، میرا نہیں! بات سمجھ میں آگئی یا سر سے گزر گئی؟بہت پہلے کی بات ہے۔ کراچی کے دلفریب علاقے صدر میں سیلنڈر (Cylinder) نما ٹیلیفون بوتھ لگائے گئے تھے۔ خاصے کھلے کھلے ہوتے تھے، دو لوگ ٹیلیفون بوتھ میں داخل ہوکر پہروں باتیں کرتے رہتے تھے۔ میں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ بھائی! ٹیلیفون بوتھ بہت کشادہ ہیں، ان میں گھس کر گھنٹوں باتیں کرنے کے علاوہ ٹیلیفون بوتھوں کے کارآمد استعمال کے بارے میں سوچو اور عمل کرکے دکھائو۔ لوگوں کو میرا مشورہ اچھا لگا۔ لوگوں نے ٹیلیفون بوتھوں میں کوڑا کرکٹ ڈالنا شروع کردیا۔ صدر میں صاف ستھرے بیت الخلا ہوا کرتے تھے۔ لوگ میرے مشورے پرعمل کرتے ہوئے صدر کے ٹیلیفون بوتھوں کو بیت الخلا کے طور پر استعمال کرنے لگے اور پھر جب ٹیلیفون بوتھوں سے لاشیں برآمد ہونے لگیں، تب میں نے ٹیلیفون بوتھوں کے بارے میں لوگوں کو مشورے دینا چھوڑ دیا۔ آپ بجا طور پر مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا میں خود بھی ٹیلیفون بوتھ، بیت الخلا کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ میں کئی مرتبہ عرض کرچکا ہوں کہ میرا کام ہے آپ کو مشورہ دینا، مشوروں پر عمل کرنا آپ کا کام ہے، میرا کام نہیں۔ جب صدر میں ٹیلیفون لگے تھے تب ڈالر ڈیڑھ روپے کے برابر ہوتا تھا، ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے، آپ ایک آنے کے دو سکے ٹیلیفون بکس میں ڈال کر لگاتار بات کرسکتے تھے۔ میرے پاس بکس میں جمع پونجی نکالنے کا گر تھا۔ صبح سویرے محکمہ ٹیلیفون کے لوگ ٹیلیفون بوتھوں کے بکس سے پچھلے دن کی جمع پونجی نکالنے آتے تھے۔ میں ہر رات دیر گئے، ٹیلیفون بوتھ کے بکسوں سے پونجی نکال لیتا تھا۔ صبح جب محکمہ ٹیلیفون کے لوگ پچھلے دن کی جمع پونجی نکالنے آتے تھے، تب ان کے پلے ایک دمڑی نہیں پڑتی تھی۔ آخرکار سرکار کو جدید ٹیلیفون بوتھ لگوا کر کراچی کی شان و شوکت بڑھانے کے ارادے سے دستبردار ہونا پڑا۔

ایک پتے کا مشورہ دیتا ہوں میں آپ کو، آپ زندگی بھر فقیر کو یاد رکھیں گے۔ آپ کبھی خاطر میں مت لایا کریں کہ کیا کہا گیا ہے۔ آپ بس اتنا دیکھا کریں کہ جو کچھ آپ نے سنا ہے، پڑھا ہے، وہ کس نے کہا ہے۔ یاد رکھیں کہ سنی ہوئی بات اہم نہیں ہوتی۔ اہم ہوتی ہے بات کہنے والے کی شخصیت، نام اور شان…! کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کے منہ سے کبھی آپ بڑی بات نہیں سنیں گے۔ بڑی بات، بڑے لوگوں کے منہ سے نکلتی ہے۔ اس نوعیت کے مشورے دے تو دیتا ہوں لیکن کبھی کبھار مجھے خود ان مشوروں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ میرے دیئے ہوئے مشورہ پر غور کرنے کی بجائے لوگ مجھےدیکھ کر میرے دیئے ہوئے مشورہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لوگ میرے ماضی اور حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل دنیا بھر کے بدنام جھوٹوں کی فہرست میں میرا نام سرفہرست ہے مگر میرا ایک مشورہ لوگوں کو بہت اچھا لگا ہے کہ کہی ہوئی بات کو اہمیت مت دیں، اہمیت دیں بات کہنے والے کی نیک نامی، ساکھ کو…! میرے اس مشورہ پر لوگوں نے صدق دل سے یقین کرلیا ہے۔ میرے گھنائونے ماضی اور حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ میرے کسی مشورے کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہیرا پھیری میری فطرت میں شامل ہے۔ میں ان کو جب سقراط اور افلاطون کا کوئی مقولہ اپنی طرف سے سناتا ہوں، تب وہ فوراً سقراط اور افلاطون کا مقولہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔