اب ایک تجربہ اجتماعی قیادت کا

April 14, 2022

چہرے وہی ہیں مگر دَور نیا ہے۔ذہن میں بے ساختہ یہ بھی آتا ہے۔ نیا جال لائے پرانے شکاری۔ اور کچھ کے لیے یہ بھی۔

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشا دکھاکر مداری گیا

لیکن ہم خلقِ خداکی ہم نوائی میں یہ بھی دعا کریں گے اور توقع بھی کہ اللہ تعالیٰ ان آزمائے ہوئے حکمرانوں سے ہی ملک کے حالات بہتر کروادے۔ پاکستان کو سب حقیقت پسند تجزیہ کار، حکمرانی کے لیے ایک مشکل ریاست قرار دیتے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں یا غیر ملکی سازشیں۔ لیکن ارضی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان 75سال بعد اقتصادی۔ بلدیاتی۔ علمی۔ سماجی۔ مذہبی۔ تہذیبی طور پر وہاں نہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہئے تھا۔ ایک اور وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ملک میں سیاسی محاذ آرائی پورے شباب پر ہے۔ جمہوریت کے نام پر سب کچھ ہورہا ہے۔ سیاسی بحران میں غیر سیاسی قوتیں آخری فیصلے کررہی ہیں۔ پارلیمنٹ جو سب سے بالاتر ہونی چاہئے اسے سپریم کورٹ کے طے کردہ ایجنڈے کے تحت چلایا جارہا ہے۔تاریخ دیکھ رہی تھی کہ اشرافیہ۔ اسٹیبلشمنٹ۔ ادارے۔ حکومت۔ اپوزیشن سب کی کارروائیاں نقل و حرکت۔ صرف اسلام آباد اور وہ بھی مختصر سے لال علاقے میں تھیں۔ وہیں عمل ہورہا تھا۔ وہیں ردّ عمل۔ اگلی شام عوام نے پاکستان کے ایک ایک شہر قصبے گائوں میں۔ سمندر پار پاکستانیوں نے کئی بر اعظموں میں اپنا دل کھول کر سڑکوں پر رکھ دیا۔ اب یہ صرف اخبار یا ٹی وی کا دَور نہیں ہے۔ مرکزی میڈیا پیچھے رہ گیا۔ سوشل میڈیا زبان خلق بن گیا۔ زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھنا چاہئے۔ سوشل میڈیا۔ واٹس ایپ گروپ۔ فیس بک۔ انسٹا گرام لمحہ بہ لمحہ واہگہ سے گوادر۔ ملبورن سے بوسٹن تک کے رجحانات ظاہر کررہے تھے۔ جریدۂ عالم پر دردِ دل نقش ہورہا تھا۔میرے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دینا چاہئے تھا۔ شہر شہر مظاہروں میں نئے سیٹ اپ کو امپورٹڈ تو کہا گیا لیکن کسی نے پی ٹی آئی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، جس کے اشارے پر بھی یہ فیصلہ کیا گیاہے اس سے فیضیابی ممکن نہیں ہوگی۔ ایک سب سے بالاتر مرکزی ادارے میں اظہار خیال سے عمران خان نے اپنے آپ کو محروم کرلیا ہے۔ اس ادارے کی نتیجہ خیزی کا اکیلے علی محمد خان کی اس تقریر کی مقبولیت سے اندازہ کرلیں جو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے منظور ہونے کے بعد کی۔

اسی طرح میرے خیال میں صدر پاکستان عارف علوی کو نئے وزیر اعظم شہباز شریف سے حلف لینا چاہئے تھا۔بیماری کی چھٹی نہیں لینی چاہئے تھی۔ یا تو وہ گورنروں کی طرح مستعفی ہوجاتے۔ صدر سے ایک یہی تو کام لیا جاتا ہے۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ ہم اگر ایک مہذب ملک ہوتے تو کئی مقدمات میں ضمانت پر جناب شہباز شریف خود وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کی بجائے پہلے عبوری طور پر کسی اور ایم این اے کو یہ موقع دیتے۔ وہ عدالتوں سے مقدمات میں بری ہوکر آتے یا نئی حکومت ان مقدمات کو واپس لے لیتی۔ پھر وہ قائد ایوان کا الیکشن لڑتے تو تاریخ ان کے بارے میں مضطرب نہ رہتی۔ عدلیہ اور احتساب کی روح مجروح نہ ہوتی۔میں تو یہ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پارلیمانی نظام کی روح کے مطابق جب عمران خان اکثریت کھوچکے تھے تو انہیں از خود وزارت عظمیٰ چھوڑ دینی چاہئے تھی۔بہرحال اب ہم ایک انفرادی قیادت کے دَور سے اجتماعی قیادت کے دَور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ایک قومی حکومت وجود میں آنے والی ہے جس کی خواہش شہباز شریف نے کی تھی۔ چوہدری شجاعت حسین بھی قومی حکومت کے ہمیشہ عاشق رہے ہیں۔ مجبور، بے کس، بے بس پاکستانی قوم اب اس قومی حکومت سے کیا توقعات رکھتی ہے؟ یہ اقتدار میں شامل سب حصّے داروں کو پتہ ہے مگر اب ان کے سامنے اپنے ووٹرز کی امیدیں ہیں یا پُر تکلف وزارتیں، ایوان صدر، کے پی ٹی، خزانہ، داخلہ، خارجہ کی آرزوئیں ہیں یا نوشکی، گھوٹکی، لالو کھیت، پتوکی، سرائیکی وسیب، ہزارہ، چکوال، مردان، وزیرستان کی آہیں اور سسکیاں۔ایک ہمارا ازلی بین الاقوامی اتحادی ہے۔ 1947 سے ہم اس کے بندھن میں ہیں۔ ہر دَور میں اپنی مرضی کے حکمران مسلط کرنے کے کھیل کھیلتا ہے۔ سیاسی طور پر ہی نہیں ناپسندیدہ حکمرانوںکو جسمانی طور پر بھی الگ کرکے دم لیتا ہے۔

ایک مقامی اتحادی ہیں جن کے روٹھتے ہی حکومتوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اور قومی خزانہ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ایک اتحادی ناکوں چنے چبوا دیتا ہے۔ اب تو اتحادیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک متوازن تقریر سے اپنے دَور کا آغاز کیا ہے لیکن اس میں جو اشعار پڑھے ہیں وہ آج سے تیس برس پہلے بھی پڑھتے تھے۔ تو کیا ان حکومتی دہائیوں میں یہ اشعار حقیقت میں نہیں ڈھالے جاسکے؟شہباز شریف۔ آصف علی زرداری۔ مولانا فضل الرحمٰن جانتے ہیں کہ پاکستان کی حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔معیشت کی زبوں حالی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ غیر ملکی قرضے، ایف اے ٹی ایف کی فہرست، پیٹرول کی قیمتیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت، بے روزگاری، سب ایک بہت سنجیدہ، معروضی، منصوبہ بندی چاہتے ہیں۔ پندرہ مہینے کی حکومت میں دو تین مہینے تو عمران حکومت کی مذمت میں گزر سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق۔ اعداد و شُمار تو اپنی جگہ رہیں گے۔ اپوزیشن خود متحد ہوئی یا بیرونی اشاروں پر۔ یا مقامی کمین گاہوں کے مشوروں پر۔ اب اجتماعی تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ لگتا تو نہیں ہے کہ ان 3½ سال میں ان رہنمائوں نے کوئی نیا سبق پڑھا ہوگا۔

عمران خان نے ان دنوں میں ہی کہا تھا کہ حکومت سے باہر ہوکر وہ زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔ آخری دو تین ہفتوں میں اپنی حکمت عملی سے اس نے حامیوں اور عام پاکستانیوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا ہے کہ اس کے ساتھیوں کو کروڑوں کے لالچ میں توڑا گیا۔ ادارے بھی ساتھ مل گئے۔ یہ بیانیہ سوشل میڈیا پر راسخ ہوتا جارہا ہے۔ جب ملک کے مختلف حصّوں میں جلسے ہوں گے تو اسے مزید پذیرائی ملے گی۔ جن قوتوں نے عمران خان کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے تھے۔ وہ آپ کو بھی اپنی حد میں رکھنا چاہیں گی۔ اس لیے صرف تدبر۔ معاملہ فہمی۔ ادراک ہی بڑے اتحادی ہو سکتے ہیں جو اس ملک میں عرصے سے ناپید ہیں۔