دل و نگاہ کی بیداری

April 15, 2022

’’مَیں نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نام پہلی بار تقسیمِ برِصغیر سے پہلے اگست 1941 میں سنا تھا۔ ڈاکٹر علامہ آئی آئی قاضی (مرحوم) جو بعد میں سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بنے، میرے ’روحانی باپ‘ تھے اور اُنہوں نے ہی سب سے پہلے مجھے مولانا کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ مجھے آج بھی وہ منظر اچھی طرح یاد ہے کہ اُن کے ہاتھ میں اردو کا ایک پمفلٹ تھا جس کا نام تھا ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘۔ قاضی مرحوم نے اُس میں سے جستہ جستہ عبارتیں پڑھ کر بھی سنائیں اور یہ کہتے رہے کہ مولانا مودودی نے واقعی گنجلک سیاسی مسئلوں کی وضاحت کر کے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُنہوں نے جس طرح کھلے دل سے مولانا مودودی کو خراجِ تحسین پیش کیا، اُس سے پہلے یا بعد میں برِصغیر کے کسی مدبر کے بارے میں اُس گرم جوشی سے میرے سامنے ذکر نہیں کیا‘‘۔

یہ واقعہ جناب اے کے بروہی نے اپنے ایک مضمون میں رقم کیا ہے جو انگریزی میں لکھا گیا تھا اور اُس کا ترجمہ ’تذکرہ سید مودودی‘ کی دوسری جلد میں شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون اِس اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اُنہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک اِنسان، ایک عالمِ دین اور ایک مصلح کی حیثیت سے تنقیدی شعور کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ مولانا کے ساتھ اُن کی فکری ہم آہنگی کا سفر کئی عشروں پر محیط ہے جس میں قومی زندگی کے نہایت نازک موڑ آئے اور مولانا کے تاریخی کارنامے اُن کے قلم سے گلزارِ کہکشاں کی مانند کِھلے ہوئے ہیں۔

بروہی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پیشہ ورانہ مشاغل میں اِس قدر مشغول ہو گئے تھے کہ اُنہیں ملکی معاملات کا صرف واجبی سا علم تھا۔ اکتوبر 1952 میں وہ ’اسٹوڈنٹس وائس‘ کے ذریعے ایک نئے تجربے سے گزرے اور اُن کے اندر یہ احساس بیدار ہوا کہ مولانا مودودی جو دانش ور بھی ہیں اور دِینی علوم پر دسترس بھی رکھتے ہیں، وہ کئی سال پہلے سے اسلامی ریاست کا تصور اَور اُس کا تشخص قائم کرنے کے لیے دل و جان سے جہاد کر رہے ہیں۔ اُن تصورات میں آزادیِ اظہار، مساوات، انسانی رواداری، اجتماعی عدل، معاشرتی بہبود اَور قانون کی حکمرانی بنیادی حیثیت رکھتی تھیں۔ اِنہی آدرشوں سے قراردادِ مقاصد معطر تھی جو مولانا مودودی کی عوامی تحریک کے نتیجے میں دستورساز اسمبلی میں منظور ہوئی تھی۔ جناب اے کے بروہی جو اَپریل 1953 میں وفاقی وزیرِقانون مقرر ہوئے، اُنہوں نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی طرف سے اسلامی ریاست کا آفاقی تصور پیش کیا اور اُن کی سفارشات کی بنیاد پر مستقبل میں آئین سازی ہوتی رہی۔ وہ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی نے ملک میں جو فضا پیدا کر دی تھی،اُس کے زیرِاثر 1956، 1962اور 1973 کے دساتیر بنائے گئے اور ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا نام عوامی مزاحمت کی بدولت قائم رہا۔

بروہی صاحب اِس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر مولانا مودودی وکالت کا پیشہ اختیار کرتے، تو بڑے اعلیٰ پائے کے قانون دان ہوتے، کیونکہ مَیں نے پاکستان میں ایسا کوئی ماہرِ قانون نہیں دیکھا جو اُن جیسے انداز میں اپنے دلائل پیش کر سکتا ہو۔ جب وہ اَپنے سامعین سے خطاب کرتے، تو کبھی اپنی آواز بلند نہ کرتے اور الفاظ اُن کے ہونٹوں سے ایسے یکساں اور ہموار لہجے میں ادا ہوتے کہ جیسے اُن کے سامنے کتاب ہو اَور وُہ اُسے پڑھ رہے ہوں۔ اردو کے نثرنگار دُوسری مشرقی زبانوں کے نثرنگاروں کی طرح اپنی تحریروں کو مقفّیٰ اور مسجع بنانے کے لیے بڑی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور منطقی اندازِ بیاں کے بجائے شاعرانہ اسلوب اختیار کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں، لیکن مولانا مودودی تصنیف و تالیف میں ایک منفرد اَسلوب کے مالک ہیں۔ مَیں نے مولانا کی کتابوں کا خاصی تعداد میں مطالعہ کیا ہے جن میں اُن کی ضخیم کتاب ’تفہیم القرآن‘ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب چھ جلدوں میں ہے اور اُس کی ضخامت تین ہزار صفحات سے زیادہ ہے۔ مَیں نے کسی اور عالمِ دین کی اتنی مبسوط اور اِس قدر عالمانہ تصنیف نہیں دیکھی جو گہرائی اور گیرائی کے لحاظ سے اتنی جامع اور حقیقت پسندانہ ہو۔ میری رائے میں مولانا کی ’الجہاد فی الاسلام‘ اُن کی تصنیفات میں غالباً عظیم ترین ہے۔ اُن کی کتابوں کے ناموں ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی فکر، اعتقادات اور اُن کی عملی زندگی کا شاید ہی کوئی رُخ ایسا ہو گا جس پر اُنہوں نے سیر حاصل کتاب نہ لکھی ہو۔

پاکستان کے مسلمانوں پر ایک مشکل وقت اُس وقت آیا تھا جب ’منیر انکوائری رپورٹ‘ شائع ہوئی۔ اُس میں علما کو تضحیک و حقارت کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ بار بار دُہرایا گیا کہ اسلام کی تشریح عصرِحاضر کے فکری تقاضوں کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ اے کے بروہی نے مولانا مودودی کا ایک اقتباس نقل کیا جس میں یہ دلیل بڑے پختہ اور معقول طریقے سے مسترد کر دی گئی تھی۔ یہ شوشہ ایوب خاں کے دور میں بھی نئے نئے پیرایوں میں اٹھتا رہا۔ مولانا مودودی کا طرزِ استدلال دیکھیے:

’’اسلام کی تجدید اور مرمت کچھ بھی کوئی کرنا چاہے، خوشی سے کرے، مگر دو تین باتیں اُسے اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ ہم مقدمات کے فیصلے تو عدالتوں سے لے سکتے ہیں، مگر نظریات اور فلسفے عدالتی زور کے نام پر قبول نہیں کیے جا سکتے۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کا ذہن ایک بات تو قرآن و حدیث کی دلیل سے مان سکتا ہے یا پھر مستقل عقلی دلائل سے، مگر جو اِسلام امریکہ، انگلستان، ہندوستان اور بین الاقوامی برادری کے دوسرے پیشواؤں کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا جائے کہ حضرات! اِس میں جو آپ کو پسند نہ آئے، کاٹ دیجیے، جو کچھ پسند آئے، اُسے باقی رکھیے اور جو آپ ضروری سمجھیں، اِس میں اضافہ کر دیجیے اور پھر اصلاح و ترمیم اور حذف و اضافے سے جو چیز تیار ہو، اُسے لا کر ’اسلام‘ کے نام سے پیش کر دیا جائے۔ وہ خواہ ہمارے اعلیٰ افسروں اور دَولت مند طبقے کو کتنا ہی اپیل کرے، عام مسلمانوں کے پاس اُس کے لیے ایک حقارت آمیز ٹھوکر کے سوا کوئی دوسری صورتِ استقبال نہیں ہے۔‘‘ ایمانی غیرت کو مہمیز لگانے والی اِس تحریر سے طاغوتی قوتوں کے چہرے فق ہو گئے تھے۔ (جاری ہے)