کیسی بلندی، کیسی پستی

April 19, 2022

مصنوعی ذہانت کیا ہے ؟ یہ انسان کی طرف سے مشین کو فیصلہ کرنے اور اقدام کرنے کی اجازت ہے۔ روبوٹ کو اگر گولی مارنے کی اجازت ہو تو آپ کا دوست اگرمذاق میں بھی آپ کو تھپڑ رسید کرے تو وہ اسے گولی مار دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان مشین کو ایک حد سے زیادہ مصنوعی ذہانت دینے کے مخالف ہیں کہ معلوم نہیں مشین پھر کیا کر ڈالے۔ اس پر دنیا بھر میں فلمیں بن رہی ہیں۔ مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کرّہ ارض سے انسان کا صفایا کر سکتی ہے۔

جو علم زندہ چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے، اسے حیاتیات کہتے ہیں۔ حیاتیاتی طور پر جانور اور انسان میں کوئی فرق نہیں۔ ایک بلی کے دل، گردے، پھیپھڑے، جلد، نروز اور خون کی نالیاں انہی اصولوں پہ کام کرتی ہیں، جن پر انسان کی۔انسان اور جانور ایک ہی جیسے مٹیریل سے بنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس زندہ چیزوں کو صرف دو اقسام میں تقسیم کرتی ہے۔ جانور اور پودے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ انسان اتنا ذہین کیسے ہو گیا۔ ویسے تو اسے اتنی ہی سمجھ ہونی چاہیے تھی، جتنی چمپینزی اور دوسرے گریٹ ایپس میں ہوتی ہے۔ اپنا ہاتھ بٹانے کیلئے روبوٹ کو عقل دے دی جائے مگر کتنی ؟خوف یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں نے اگر انسان کے خلاف بغاوت کر دی تو؟ دنیا بھر میں اگر کروڑوں روبوٹ انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں رابطہ کر کے انسان کو دشمن ڈکلیئر کر دیں تو کیا ہو گا۔ انسان نے کمپیوٹر بنا لیا مگر اب زبانی تووہ کمپیوٹر جتنی رفتار سے کیلکولیشنز نہیں کر سکتا۔ انسانی اور مشینی رفتار میں بہت فرق ہوتاہے۔ وہ ہزاروں پیمائشیں ایک لمحے میں کر سکتاہے۔ اسکے اندرانسانی جسم جیسی کمزوریاں، بھوک، پیاس اور نیند نہیں۔ اسے آرام کی ضرورت نہیں۔ انسان جیسی شکل و صورت رکھنے والے روبوٹس کو Humanoid کہا جاتاہے۔ یہ چل پھر سکتے ہیں۔ انسان کومشروبات فراہم کر سکتے ہیں۔وقت گزرنے کیساتھ وہ زیادہ سے زیادہ انسانی خصوصیات سے لیس کیے جا رہے ہیں۔

مشین کی بغاوت ایک ایسا خوفناک Scenario ہے‘ جس سے سائنسدان انسان کو متنبہ کر تے رہے ہیں۔جب آپ ایک چیز کو سوچنے اور خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت مہیا کر رہے ہیں تو خدا جانے‘ کس وقت وہ آپ سے باغی ہو جائے۔ یہ وہ لمحہ ہے‘ جہاں انسان کے اندر کا بے پناہ خوف انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انسان خود بھی مصنوعی ذہانت پہ ہی چل رہا ہے۔ جہاں تک اپنی حسیات (Senses)سے کام لے کر کھانے پینے اور جان بچانے تک کا تعلق ہے‘ تو اس میں انسان اور جانور ایک برابر ہیں۔ یہ ایک لوکل عقل ہے‘ جس میں بندر جیسے جانور انسان سے کہیں بہتر ہیں۔ آج سے پچاس ہزار سال پہلے کوئی حادثہ پیش آیا، جس میں انسان پر آسمانی عقل کا نزول ہوا ورنہ نینڈرتھل اور ہومو اریکٹس جیسی کتنی ہی مخلوقات تھیں، جو انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پہ چلا کرتیں۔

خدا کو اس بات سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا‘ جیسا ہمیں روبوٹس کو مصنوعی ذہانت دیتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس دنیا میں جتنے بھی عناصر پائے جاتے ہیں، جن سے ہر جاندار اور بے جان چیز بنی ہے، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جس کی مدد سے انسان اس آسمان کی حدود سے باہر نکل سکے۔ اسی لیے خدا کہتاہے کہ ’’اے گروہِ جن و انس اگر تمہارے بس میں ہو کہ زمین و آسمان کے کناروں سے نکل سکو تو نکل جائو، جہاں نکل کر جائو گے اُسی کی سلطنت ہے‘‘۔ مفہوم سورۃ الرحمٰن آیت 33۔ اس عقل سے کام لے کر آپ کیپلر اور جیمز ویب دوربین کی مدد سے صرف دیکھ سکتے ہیں، کر کچھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو خدا کی طرف سے کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جو کرنا چاہتا ہے‘ بشمول خدائی کے دعووں کے‘ وہ کر گزرے۔ کبھی آپ اس بات پر غور کریں کہ انسان تو روبوٹس کو ذہانت دیتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھار ہا ہے۔ دوسری طرف خدا نے انسان کو کس قسم کی خوفناک عقل اتنی فراوانی کے ساتھ فراہم کر دی ہے۔ کرّ ہ ارض پہ اس وقت کم و بیش آٹھ ارب افراد اس سے مالا مال ہیں۔ یہ انسان گزشتہ چالیس پچاس ہزار سال سے زمین کے نیچے سے لوہا‘ تیل اور معدنیات نکال کر ان سے انجن سمیت مختلف اوزار اور آلات بنا رہا ہے۔ اسے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ نہ صرف یہ‘بلکہ پچھلے پچاس ہزار سال سے انسان کو کھلی آزادی دی گئی ہے کہ ہر انسانی نسل اپنا علم اگلی نسل کو منتقل کر سکے۔ اسے یہ کھلا چیلنج دیاگیا ہے کہ ہزاروں سال کی سوچ بچار اور مشقت سے کام لے کر اگر وہ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے نکل سکے تو نکل جائے۔انسان نے اس عقل سے کام لے کر کائنات کی تخلیق اور اس کے اختتام کے بارے میں ہزاروں تھیسز لکھ مارے ہیں‘لیکن پھر بھی وہ کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ کائنات پر اپنی مکمل حکمرانی قائم کر سکے۔کیسی بلندی، کیسی پستی۔