اسٹیبلشمنٹ اور ہماری خوش فہمی

April 20, 2022

پاکستان گزشتہ ہفتے کے دوران جس بحران سے دوچارتھا، وہ اگرطول پکڑتا یا ڈیڈلاک برقراررہتاتو ملکی سلامتی و سیاست سمیت ہر شعبے پر اس کے انتہائی خوفناک ودیرپا اثرات مرتب ہوتے،تاہم اس مرحلے پر عدلیہ، فوج اورسیاسی قیادت نے جس برد باری، تدبر، فہم اوراعتماد کا مظاہرہ کیا اُس سے نہ صرف یہ کہ ملکی سیاسی صورتحال معمول پرآگئی بلکہ دنیا پر بھی یہ ظاہر ہوگیا کہ قدرت نے پاکستانی قیادت واسکے اداروں میںجوہر رکھا ہے کہ وہ دیومالائی مسائل بھی حُسن ِ تدبیر کے ساتھ حل کرلیتے ہیں۔ یوںتو ہم ہر ایسے واقعہ پر،جوخلاف ِمعمول طور پر ملک وملت کو متاثر کرے، تاریخی قرار دے ڈالتے ہیں،لیکن یہ واقعہ درحقیقت تاریخی یوںہے کہ قیام پاکستان کے بعد شاید پہلی مرتبہ ملک کے تمام کلیدی اداروں نے اپناوہ کردار بہ احسن وخوبی اداکیا جس کا تقاضا آئین کی منشا ہے۔اس طرح کے واقعات قبل ازیں بھی مثال بنے لیکن کبھی ایک ادارے کا کردار قابلِ تحسین ہوتاتودوسراادارہ نیک نامی سمیٹنے میں ناکام رہتایعنی ایسا شاید ہی کبھی ہواہو کہ تمام ادارے وقوتیں صرف وصرف ملکی مفاد کی خاطر آئین کے تابع ملکی مفادمیں یک زبان ہوں۔ دیکھا جائے توبھونچال پیداکرنے والے واقعات محض آئین سے انحراف کے سبب ہی رونما ہوئے، یہ عام سیاسی بزنس ہے کہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اس سے آئینی طورپر ہی نمٹا جاتاہے۔ قبل ازیں ایسا متعددبار ہو چکاہے،بلکہ بسا اوقات تو ایک وزیر اعظم جب دیکھتاہے کہ اُس کی پارلیمانی حیثیت زیر بحث ہے تو وہ ازخود اعتماد کا ووٹلینے کا اعلان کر دیتا ہے۔یہاں چونکہ عدم اعتماد سے فرار ہی اختیارکرناتھا اس لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیاجو خلافِ آئین تھا جس کے نتیجے میں کاروبار مملکت جمودبلکہ زیر وزبر ہو گیا۔ ایسے میں آئینی اداروں کے اُس کردارکو جس کی ادائیگی کے بعد ملکی حالات معمول پرآگئے،قابلِ ستائش اور خوش کن قرارنہ دینا شاید زیادتی ہوگی۔ بنا بریں سارے سیاسی منظر نامے میں حیران کن امر یہ ہے کہ کل تک جو اسٹیبلشمنٹکیخلاف بات سنتے ہی سیخ پاہوجاتے اور پاسبانوں کے پاسبان بن جاتے وہی آج اپنے ممدوح کیخلاف مہم برپا کئے ہوئےہیں۔آخراچانک ایساکیاہواکہ کل کے ایک پیج ایک پیج کے گیت گانے والے ایک دوسرے کیلئے غیر ہو گئے۔ اسکی وجہ فوج کاوہ غیر جانبدار کردارہے جو اس کا آئینی فریضہ تھا۔بعض افواہیں ایسی تھیں کہ عدم اعتمادکی یقینی کامیابی کے پیش نظر سابق وزیراعظم عمران خان مارشل لا سمیت کسی بھی ایسے غیر آئینی اقدام کے خواہاں تھے کہ جس سے حکومت اپوزیشن کے ہاتھ میں نہ آئے لیکن اس سلسلے میں’’Absolutely Not‘‘کے بعدبعض تجاویززیر بحث آئیں۔ان تمام باتوںسے قطع نظر 14اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آرنے جوبریفنگ دی وہ جہاں جمہوریت کے حوالے سے خوشگوارعزم لیے ہوئے تھی،وہاں اس سے عمران خان کے اُس خط جس میںامریکی دھمکی کادعویٰ کیا گیا تھا،کی اصل حقیقت بھی آشکار ہوگئی،یوںتو روز اول سے سنجیدہ حلقے اسکو جھوٹکا پلندہ قراردیتے رہے تھے لیکن پی ٹی آئی کی بھرپور مہم کی وجہ سے ایک تاثر ضرور بن گیا تھا۔پھر تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان ہمیشہ سے امریکا کاحلیف رہا ہے اور اس ناطے قبل ازیں عمران خان سے بھی زیادہ طاقتور حکمرانوںکو امریکی پالیسی کے خلاف طبلِ جنگ کی جرأت نہ ہوسکی۔ یہ الگ کہانی ہے کہ نظریہ پاکستان کے رکھوالے جو کہ اندرون ِ خانہ خطے میںامریکی پالیسیوںکو تقویت دینے میںمگن رہتے تھے توعمران خان ہی کی طرح یہ تاثر دیتے تھےکہ گویاوہ امریکی مخالف یا غیر جانبدار پالیسی پر گامزن ہیں۔ بہر صورت بریفنگ میں یہ بات تو واضح ہوئی کہ آرمی چیف نے ڈیڈلاک کےدوران جوکرداراداکیا وہ عمران خان کےکہنے ہی پر اداکیا۔ استعفیٰ دینے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے حوالے سے دو تجاویزعمران خان کی جانب سے رَد کیے جانے کے بعدیہ تجویز کہ تحریک عدم اعتماد واپس لینے پر اسمبلیاں توڑ کرانتخابات کااعلان کردیاجائے گا،اس تجویز کو چونکہ اپوزیشن کی زیرک قیادت نے قبول نہیںکیا تو آرمی چیف ایک طرف ہوگئےیعنی اُنہوں نے مصالحانہ کردارکی بجائے وہی کرناناگزیر سمجھاجو آئینی تقاضا تھا۔یوں سابق وزیراعظم عمران خان کی خواہش کےبرعکس عدلیہ اور آرمی نے آئین کے مطابق اپنا کردار اداکرتے ہوئے اُس تحریک عدم اعتمادکے عمل کو ممکن بنایا جس کےنتیجےمیں عمران خان کو جانا پڑا اور موجودہ حکومت کیلئے آئینی طورپرامور مملکت سنبھالنے کا راستہ ہموارہوا۔ہم اس فکر کے حامل رہے ہیںکہ ملکی مفادکا تقاضا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو آئینی کردارتک محدودہوتے ہوئے سیاست میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے ۔ ڈیڈ لاک کے دوران فوج کے کردار اور 14اپریل کوڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ جس میں جمہوریت پر غیر متزلزل ایقان کا اظہار کیا گیا ہے سے، ہم جیسے لوگوںکو جو خوش فہمی پیداہوگئی ہے کہ شاید آمیزش سے پاک جمہوریت اب اس مملکت کا مقدر ٹھہرے، خداکرے کہ ہماری خوش فہمی میںحقیقت کا رنگ آجائے۔