’’امن کی آشا ‘‘ کی جوت پھر سے جگائیے!

May 17, 2022

پاکستان اور بھارت کے دو کثیر الاشاعت اور مقبول روزناموں‘‘جنگ‘‘ اور ٹائمز آف انڈیا نے مشترکہ طور پر’’امن کی آشا‘‘ کے عنوان سے پاک بھارت دوستی کا ڈول ڈالا تھا اور آج اخباروں کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کے لگ بھگ 66فیصد یعنی دو تہائی اور پاکستان کے72فیصد یعنی تین چوتھائی افراد نے دونوں ملکوں کے درمیان پرامن دوستی بھائی چارہ اور خوشگوار تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے، ان خوشگوار تعلقات کا اظہار کرنے والوں کے علاوہ صرف ایک معمولی تعداد ایسے افراد کی تھی جنہوں نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے ایسےکم فہم افراد بھارت میں17فیصد اور پاکستان میں8فیصد ہیں۔ یہ سروے بھارت کے دہلی، ممبئی، کول کلکتہ، چنائی، بنگلور اور حیدرآباد شہر میں اور پاکستان کے کراچی اور حیدرآباد سندھ میں کیا گیا تھا، 54فیصد افراد کا یہ کہنا بھی ہے کہ انہیں امید نہیں کہ ان کی زندگی میں دونوں ملکوں کے درمیان امن کی فضا قائم ہوگی۔ ممبئی حملوں کے باوجود وہاں50فیصد لوگوں کی خواہش تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اور پرامن تعلقات ہونے چاہئیں جبکہ 42فیصد اس کے خلاف تھے۔امن کی یہ مساعی دونوں ملکوں کے صحافتی حلقوں کی تحریک پر شروع کی گئی تھی،اس ناچیز نے گزشتہ چھیالیس46برس سے پاک وہند کے درمیان دوستی کی اس سچائی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا’’ پاک وہند کے مابین دوستی کے بغیر پاکستان کی ترقی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے نامور صحافی اور پاک ہند دوستی کا سب سے بڑے استعارے کلدیپ نائر نے میرے کالموں کے حوالے سے لکھا تھا۔’’ میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوپاک کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کی فضا پیدا کرنے میں اس شخص کی تحریر کی جتنی کنٹری بیوشن ہے کسی اور صحافی کی نہیں، اگر مجھے اسد مفتی جیسے دس آدمی مل جائیں تومیں ہندوستان اور پاکستان کےمابین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوستی کا باغ کھلا سکتا ہوں‘‘۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے ’’امن کی آشا‘‘ کے عنوان سےجن اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان کا مقصد جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور سلامتی کا فروغ اور متنازع مسائل کے حل کیلئے پر خلوص کوششوں کا آغاز تھا۔

ماضی میں تشدد،جارحیت اور آمریت کے طریقوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اگر حل ہوا بھی تو وہ دیرپاثابت نہ ہوسکا، دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت یہ محسوس کررہی ہے کہ75برس سے زائد مسلسل ایک دوسرے کیخلاف پروپیگنڈے اور سردگرم جنگ سے نہ تو بھارت کو کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچ سکا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میںپائیدار امن واستحکام بے حد ضروری ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دنیا کا یہ علاقہ اور بھی خطرناک ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمالیائی بلندیاں بھارت اور چین کی دوستی میں حائل نہیں ہوسکتیں تو کیا کشمیر، کارگل اور سیاچن کی بستیاں بھارت اور پاکستان کی دوستی کاراستہ روک سکتی ہیں؟ ہمارے دانشوروں کی مساعی’امن کی آشا‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور ہے۔ یہ طے ہے کہ آج نفرت اور دشمنی کے اندھیروں کی جگہ محبت اور دوستی کی ضرورت ہے اور اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان اور بھارت دوخود مختار ملک ہیں، ہمارے مسائل ایک ہیں اور وسائل بھی کم وبیش ایک جیسے ہیں، ادب وشاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں، ہمارا دردوکرب بھی ایک اور خوشی غم بھی ایک۔ اگر ہم اپنے دلوں سے کدورت اور نفرت کا میل دھو ڈالیں تو اس خطے میں پائیدار امن وسلامتی کے پھول کھل سکتے ہیں۔ذرا ہمارے ہندوستانی بہن بھائی اس بات پر غور کریں کہ نورجہاں کے نغموں، فیض، فراز اور قتیل کی غزلوں کے بغیر کیا ان کا ادب وفن مکمل ہوسکتا ہے؟ کیا مہدی حسن، غلام علی اور نصرت فتح علی خان کی آوازوں سے بھارت کا کوئی گھر بچا ہوا ہے؟ کیا پاکستان کی ہر بستی کی ہر گلی کے ہر گھر میں بھارتی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں؟ اور کیا ہر گھر سے لتا منگیشکر، کشور کمار، محمد رفیع، طلعت محمود اور آشا بھونسلے کی آوازیں کانوں میں نہیں پڑتیں؟ اور کیا دلیپ کمار اور لتا پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک پل کا کام نہیں دےرہے تھے آخرخرابی ہے کہاں؟ کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟ کیا ہماری زمینیں بانجھ ہیں؟ کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نا مہربان ہیں؟ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمسائے کیخلاف حالت جنگ میں رہنے کے بجائے ناداری، بھوک، افلاس، جہالت، جرائم، استحصال اور مذہبی جنونیت کیخلاف جنگ شروع کریں۔ آج دونوں ملکوں کو ایک پیس فائونڈیشن، امن کمیٹی،پریم سبھا، فرینڈ شپ سوسائٹی، بھائی چارہ پلیٹ فارم اور امن کی آشا کی اشد ضرورت ہے کہ عوام کو قریب لایا جاسکے۔ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دونوں ملکوں کے دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں اور ترقی پسند سیاستدانوں کو اکٹھا ہوناچاہئے اس سلسلے میں میڈیا کانفرنسوں کی بھی ضرورت ہے۔