خطوط، اپنے زمانے کی تاریخ ہیں!

May 19, 2022

وہ جو روز کالم لکھتے، عمر کے پچاس برس گزار چکا ہے اور لہجے کی لطافت ابھی تک تازہ ہے۔ وہ کبھی کبھی ایک شمارہ بھی مرتب کرتا ہے اس کے شائع ہونے سے پہلے اور شائع ہونے کے بعد اس مرتب اور کالم نگار پر کیا گزرتی ہے۔ اس لیے وہ خود نہیں لکھتا۔ البتہ جو لوگ خطوط کے ذریعہ اپنی تخلیق شائع کروانے کے لیے بضد ہوں۔ کبھی کہتے ہیں وہ میری تصویر کا کیا ہوا، جلدی شائع کرو۔ چونکہ ہمارا کالم نگار کئی حکومت کرنے والوں کے گھر کے فرد جیسی شناخت رکھتا ہے، تو پھر ہر طرح اور ہر عمر کے ادیب، اپنی نوکری، پروموشن، تبادلے اور ہر مرحلے پر اس کو مشکل کشا سمجھ کر، دل کی باتیں، شکایتیں اور سفارش کی تختی پر اپنا نام لکھوانے کو اتنی محبت سے درخواست کرتے یا اشارہ کرتے ہیں کہ کئی دفعہ تو صفحے کے صفحے کالے کرنے پڑتے ہیں اور کئی دفعہ یاددہانی کو قرض سمجھ کر ادا کرنے کی تاکید تو کبھی التجا۔ یہ سارے یک طرفہ خطوط ہیں۔ ممدوح نے کیا لکھا، کب لکھا۔ نامعلوم یہ کس کا ذکر اور کن لوگوں کے حوالے دیئے جا رہی ہوں بے نامی تو عدالتوں میں ہوتی ہے۔ تحریر میں ہر لکھنے والا ویسے سچی بتائوں، میرے سمیت اپنا نام لکھنے کے بعد، خوش ہوتا ہے۔ راز کی بات کھول دیتی ہوں۔ ساڑھے سات سو صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب ان خطوط پر مشتمل ہے جو ہمارے عظیم ادباء، ہمارے ممدوح عطا الحق قاسمی کے نام لکھتے رہے۔

سب سے بڑھ کر حیرانی ہوئی، جب قاسمی صاحب نے اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے طویل خط لکھا۔ آگے چلوں تو سامنے 17 صفحات پر پھیلے ایک ادیب کے خطوط میں معاشرے کی عدم توجہ پر لکھواتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فالج کے باعث، زندگی اور آمد و رفت محدود ہو گئی ہے۔ بالکل اسی طرح اپنا دکھڑا، یونس جاوید نے اپنی نوکری سے برخاستگی پر داستان حسرت لکھی تو کئی صفحات پر پھیل گئی۔ اسی طرح ہمارے منیر شیخ کے خطوط بھی ادبی کم اور نوکری کے حوالے سے سفارشی نظر آتےہیں۔ اسی ضخامت کے مشفق خواجہ کے خطوط بھی ہیں مگر ان میں چاشنی حس مزاح اور ضیا کے زمانے کی پابندیوں کا ہلکا سا حوالہ اور وہ خود جو پرچہ بعنوان تخلیقی ادب نکالتے تھے، ان کے سر میں درد ڈاکٹر سلیم اختر کی تحریریں پڑھ کر ہو جاتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں بھی ماہ نو کے زمانے میں ان کی کہانی یا مضمون پڑھتے ہوئے اوب جاتی تھی مگر اتنے مسکین ادیب تھے کہ مرتے دم تک نہ صرف لکھتے رہے بلکہ لکھواتے بھی رہے۔ اسی طرح 23 صفحات پر ڈاکٹر صفدر محمود کے سنجیدہ خطوط ہیں، پڑھ کر حیران اس لیے بھی ہوئی کہ عطا کو مخاطب کر کے لکھ رہے ہیں کہ ’’آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ واللہ یہ اتنے کم سن تھے۔ویسے تو ایک دو خط شفقت تنویر مرزا اور منیر نیازی نے بھی لکھے، جب بات پہنچی شفیق الرحمان تک بالتفصیل پورے 25 صفحات میں ان کے خطوط جس میں عطا کو سفیر پاکستان مقرر ہونے پر دعائیہ کلمات اور تقریباً ہر خط میں امجد اسلام امجد کے لیے سلام اور دعائیں۔ کسی بھی خط میں برساتی اور مزید حماقتیں لکھنے والے کا عکس نہیں نظر آتا، البتہ عطا کی بیماری پر مذاقاً جملہ بھی لطف دیتا ہے۔

شفیق الرحمان کے مقابلے میں 24 صفحات پر مشتمل خطوط جمیل الدین عالی کے، وہ بار بار سب کو یاد کراتے ہیں کہ میں نے اردو، اردو ادب اور رائٹرز گلڈ کی کتنی خدمت کی ہے۔ کتنے ادیبوں کو نوکریاں دلوائی ہیں۔اس ضخیم کتاب میں خواتین کے خط بھی ہیں، خالدہ حسین اور شبنم شکیل تو اپنی تحریروں کے حوالے سے لکھتی ہیں۔ نوریہ چوہدری اپنی سوچ میں خط لکھتی ہیں مگر طاہرہ اقبال، اچھا ناول اور اچھی نثر لکھتی ہیں۔ مگر آپ سے مخاطب ہوتی ہیں تو آخری فقرہ ہے ’’آپ کی نگاہ التفات کی منتظر ہوں۔‘‘ کیا تبصرہ کروں! بہت سے ادیبوں جیسے شمس الرحمان فاروقی، ظفر اقبال اور فتح محمد ملک نے اپنے اسلوب میں لکھتے ہوئے یہ خیال رکھا کہ تم ان کا خط، کتر بیونت کے ساتھ نہ شائع کردو۔بہت سے اہم خطوط ہیں۔ جن کی تاریخی حیثیت ہے۔ جیسے نواز شریف، شہباز شریف کے خط، علاوہ ازیں کوثر نیازی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خطوط، بہت سے نام جو کل تک سامنے تھے جیسے خالد احمد، نجیب احمد، سراج منیر، قمر جمیل، عبداللہ علیم اور گلزار وفا چوہدری۔ یہ سب رات بھر تو تھے صبح ہوتے ہی ہم ان کا نام لے کر یاد کر رہے ہیں۔

میں نے پورے صفحات کئی مرتبہ ٹٹولے کہ شاید کہیں ادبی تحریکات کا ذکر آجائے، کہیں تخلیقات پر تبصرے ہوں۔ کہیں چٹکلے کہ آج کل کون سرکار کے نورتن ہیں، اس پر تبصرہ ہو۔ عطا خود ہی اکثر و بیشتر نو رتنوں میں شامل رہے ہیں، آج کل پھر عروج کا زمانہ آ رہا ہے اور وہ سب کیس دشمناگی میں گزشتہ حکومت نے کئے تھے۔ وہ سب فائلیں اب تک بھٹی میں جل چکی ہوں گی۔ تحسین کی بات یہ ہے کہ اول تو عطا نے سارے خطوط، چاہے وہ ایک لائن کا رسیدی خط ہی ہو، سنبھال کر رکھا بلکہ ڈاکٹر عائشہ تنظیم نے جس سلیقے سے مرتب کیا۔ داد، دونوں کی ہمت اور حوصلے کو دی جائے۔ بس تشنگی یہ ہے کہ نواز شریف کے دور کے لیے مبارکباد اور سفیر مقرر ہونے پر تحسین تو سب نے کی۔ سیاسی افراتفری کا بیانیہ مفقود ہے اور دنیا کے علاوہ پاکستان میں اس قدر نئے موضوعات پر ادب ہی میں بحثیں ہوئی ہیں۔ ان کی ایک چٹکی ساقی فاروقی کے خطوں میں نظر آتی ہے۔ افتخار عارف کے خطوط بھی لندن کہانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ البتہ جگن ناتھ آزاد کے پاس بڑا وقت تھا۔ انہوں نے پچاس صفحات پر مشتمل جو گاہے گاہے خطوط لکھے ہیں وہ ایک طرح کے سفرنامہ، ملکوں ملکوں کی سیر اور بار بار یہ اصرار کہ ان کو اپنے ادبی صفحے میں بطور حوالہ ہی سہی، شائع ضرور کیجئےگا۔

آخر میں میری زبان میں کھجلی ہو رہی ہے یہ بتانے کو کہ اس کتاب یا مجموعے کی کیا ادبی دنیا میں نئے آنے والوں کے لیے کوئی دستاویزی اور تاریخی اہمیت ہے جن لوگوں کو تحقیق کا چسکا ہوتا ہے۔ وہ تو کچھ نیا سامنے لے آئیں گے۔ معاصر بھی چند رہ گئے ہیں۔ وہ ’’پرانے‘‘ زمانے میری طرح یاد کریں گے۔ یہ مرقع اپنی لائبریری میں ضرور رکھیں گے کہ آنے والے زمانوں کا تقابل ہوسکے۔