بیوی کا کھانا پکانا کن حالات پر موقوف ہے؟ (گزشتہ سے پیوستہ)

May 20, 2022

تفہیم المسائل

بعض علماء نے کہا ہے کہ عورت پر خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے۔ اگر اس کا تعلق معزز اور خوشحال گھرانے سے ہو تو گھر کی دیکھ بھال اور خانگی امور کی نگرانی اس کے ذمے ہے اور اگر وہ متوسط گھرانے کی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ خاوند کا بستر وغیرہ بچھائے اور اگر وہ غریب گھرانے کی ہو تو اس پر گھر کی صفائی کرنا ،کپڑے دھونا اور کھانا پکانا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :’’عورتوں کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے دستور کے مطابق ان کے فرائض ہیں،(سورۃ البقرہ :228)‘‘۔

یہ معقول رائے ہے اور ہر زمانے میں مسلمانوں کے گھرانوں میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے، نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحابؓ کی ازواج محترماتؓ چکی سے آٹا پیستی تھیں، کھانا پکاتی تھیں، بستر بچھاتی تھیں اور اپنے خاوندوں کے لیے کھانا لا کر رکھتی تھیں اور دیگر انواع کی خدمت کرتی تھیں اور نبی کریمﷺ نے معاشرت کی ذمہ داریوں کو مرد اور عورت پر تقسیم کردیا تھا، خواتین جنت کی سردار حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا کے ذمہ خانگی ذمہ داریاں تھیں اور حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ کسبِ معاش اور کمانے کی ذمہ داریاں تھیں۔ حاصل بحث یہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں، مردوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور حسن سلوک کے ساتھ رہیں، اُن کو ضرر نہ پہنچائیں، (تبیان القرآن ،جلد1،ص:849)‘‘۔

ایک مثالی بیوی کے اوصاف رسول اللہ ﷺ نے ان احادیث مبارکہ میں بیان فرمائے ہیں:

(۱)ترجمہ:’’ بےشک، دنیا اسبابِ زیست ہے اوران میں سے (اللہ کی) سب سے بہتر نعمت نیک بیوی ہے، (صحیح مسلم:1467)‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’ اللہ کے تقویٰ کے بعد مومن کے لیے سب سے مفید نعمت نیک بیوی ہے کہ اگر اسے (کسی جائز بات کا) حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور وہ اسے دیکھے تو اس کے لیے خوشی کا باعث ہو اور اگر وہ قسم کھا کر کوئی (جائز ) بات کہے تو اس کی لاج رکھے اور اگر وہ گھر پر موجود نہ ہو تو اپنی عفت اور اس کے مال کے بارے میں اس کے لیے خیر خواہ ہو، (سُنن ابن ماجہ:1857)‘‘۔